وزیر اعظم نے کسانوں کو تحریک ختم کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کریں گے، جب کہ کسان رہنما بھی حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ تاہم مرکزی حکومت اور کسانوں کے درمیان کئی دور کی بات چیت ہوئی لیکن یہ بات چیت نتیجہ خیر نہیں رہی۔
وہیں راجیہ سبھا میں وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ روز کہا تھا کہ کسانوں کے تعلق سے جو بنیادی باتیں ہیں، اچھا ہوتا کہ اس پر بحث ہوتی، اہم ایشوز پر باتیں نہ کرکے اراکین نے غیرضروری باتوں پر توجہ دی۔ کسان احتجاج کیوں کر رہے ہیں اس پر باتیں نہیں ہوئیں بلکہ حکومت نے ان کے ساتھ کیا کیا اس پر خوب بحث و مباحثہ ہوا۔ کسانوں کی تکلیف دور کرنے کے لیے جو قوانین لائے گئے ہیں اس پر نکتہ وار بحث ہونی چاہیے نہ کہ احتجاج یا اس کے طریقہ کار پر۔
وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے جو سوالات کیے ہیں اچھا ہوتا کہ اراکین اس پر بحث کرتے۔
کسانوں کی تحریک پر راجیہ سبھا میں جم کر بحث ہوئی۔ کس بات پر تحریک چلائی جا رہی ہے اس پر خوب باتیں ہوئیں لیکن اصل مسئلہ کیوں کر پیدا ہوا اس پر بات نہیں ہوئی۔ وزیر زراعت نے بہت اچھی بحث کی ہے۔
کاشتکاری کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس کی جڑیں کیا ہیں۔ اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔ سابق وزیراعظم چودھری چرن سنگھ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ بہت لوگ ہیں جو خود کو ان کا وارث کہتے ہیں وہ بھی ان باتوں کا خیال رکھیں۔
چودھری چرن سنگھ نے کہا تھا کہ مردم شماری میں 36 فیصد کسان ایسے ہیں جن کے پاس دو بیگھہ یا اس سے کم ہے۔ 18 فیصد کسانوں کے پاس 2-4 بیگھہ زمین ہے۔ چھوٹے کسانوں کی حالت زار سے وہ ہمیشہ پریشان رہتے تھے۔ ایسے کسان جن کے پاس ایک ہیکٹیر سے بھی کم زمین ہوتی ہے 1997 میں وہ 51 فیصد تھے آج ان کا تناسب 61 فیصد ہے۔
زرعی قوانین پر وزیر اعظم مودی کا خطاب، راکیش ٹکیت کا رد عمل آج 87 فیصد سے زیادہ کسانوں کے پاس 2 ہیکٹیئر سے بھی کم زمین ہے۔ ان کی تعداد 12 کروڑ ہے۔ کیا ان کی ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہم ان کے لیے کیا کریں گے۔ ان کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہوگا۔ یہ سوال چودھری جی چھوڑ کر گئے ہیں۔
چھوٹے کسانوں کا بینک میں کھاتہ بھی نہیں ہے وہ بینک میں کیا کرنے جائے گا۔ نہ وہ قرض لیتا ہے نہ اسے قرض معافی کا فائدہ ملتا ہے۔ خوشحال کسانوں کو ہی اس کا فائدہ ملتا ہے۔ انشورنس کا فاہدہ بھی بڑے کسان ہی اٹھاتے ہیں۔
سینچائی کی سہولت بھی چھوٹے کسانوں کے نصیب نہیں ہے۔ بجلی، ٹیوب ویل کا فائدہ بھی بڑے کسان ہی اٹھاتے ہیں۔ اسے مہہ مانگی قیمتوں پر پانی کی قیمت دینی پڑتی ہے۔ یوریا اور کھاد سے بھی وہ خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔
2014 کے بعد ہم نے چھوٹے کسانوں پر توجہ دینی شروع کی۔ فصل بیمہ یوجنا کے تحت 90 ہزار کروڑ روپیے اس کے کلیم کسانوں کو ملے۔ قرض معافی سے بھی یہ اعدادوشمار زیادہ ہو جاتا ہے۔
کسان کریڈٹ کارڈ ہم نے جاری کیا اور انہیں فائدہ پہنچایا ۔ 1.75 کروڑ کریڈٹ کارڈ انہیں جاری کیے جا چکے ہیں۔ ریاستی حکومتوں کو بھی اس پر توجہ دینے کی گزارش کی گئی ہے۔
پردھان منتری سونیدھی یوجنا 10 کروڑ خاندانوں کو اس کا فائدہ ملا ہے۔ سوئل ہیلتھ کارڈ جاری کیا تاکہ جس کی جیسی زمین ہے اسے اس کا فائدہ ملا۔ یوریا بھی ان تک پہنچایا۔ چھوٹے کسانوں کے لیے پہلی بار پنشن کی سہولت پہنچائی۔ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا بھی کسانوں کے گاوں کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔ کسان ریل ہم نے ہی شروع کیا۔ ریلوے کے ذریعہ وہ اپنی سبزیاں بڑے شہروں تک پہنچا رہا ہے۔ کسان اڑان یوجنا کے تحت بھی ان کی فصلوں کو دوردراز تک پہنچائے کی کوششیں جاری ہیں۔
وزیراعظم کے خطاب کے بعد غازی پور بارڈر پر بھارتیہ کسان یونین کے قومی ترجمان راکیش ٹکیت نے ایک پریس کانفرنس کرکے میڈیا کے نمائندوں کو کسان یونین کے موقف کو پیش کیا تھا۔
اس پریس کانفرنس میں راکیش ٹکیت نے کہا تھا کہ کسانوں کو الجھایا جارہا ہے، ہم نے کبھی کہا ہی نہیں کہ ایم ایس پی ختم ہورہا ہے، ہماری مطالبہ ہے کہ ایم ایس پی پر قانون بنے۔ ایم ایس پی پر قانون بن جائے گا، تو ملک بھر کے کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ ایم ایس پی پر قانون نہیں ہے، اسی لیے بیوپاری کسانوں کو لوٹ رہے ہیں۔
وزیراعظم مودی نے کہا تھا کہ چیلنجزز تو ہیں ہی لیکن ہم فیصلہ کرنا ہے کہ ہم مسئلے کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا حل کا ایک ذریعہ بننا چاہتے ہیں۔ ٹکیت نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر مرکزی حکومت تینوں زرعی قوانین کو واپس لے لیں تو مسئلہ ختم ہوجائے گا۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ آج کل ملک میں ایک نئی 'آندولن جیوی' نام کی ایک نئی برادری جنم لی ہے، اس پر ٹکیت نے کہا کہ وزیر اعظم نے ٹھیک کہا ہے۔ کسان برادری احتجاج کررہی ہے، اور اس برادری کے ساتھ میں عام جنتا بھی کھڑی ہے۔
ٹکیت نے کہا تھا کہ کسانوں کے مسائل کے حل کے لیے اگر مرکزی حکومت کسانوں سے بات چیت کرنا چاہتی ہے تو کسان سنیکت ایکتا مورچا حکومت سے بات کرنے کے لیے تیار ہے، ہم حکومت سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔