ممبئی: ڈاکٹر زیڈ حسن نے کہا کہ مرزا غالب (1797_1869) اور جان کیٹس (1795-1892) دونوں نے ایک ہی زمانہ پایا۔ مرزا غالب ۱۷۹۷ میں پیدا ہوئے، جب کہ جان کیٹس ان سے صرف دو برس پہلے اکتوبر 1795 میں پیدا ہوئے تھے۔ البتہ کیٹس نے 26 برس کی مختصر مدت میں دنیا کو خیرباد کہا اور غالب کو قدرت نے 72 برس کی طویل عمر سے نوازا۔ غالب تلوار کے دھنی خاندان میں پیدا ہوئے ،Dr Zaid Hasan New Book On Mirza And John keats Poetry In Mumbai
ڈاکٹرزیڈحسن نے مزید کہاکہ واضح رہے کہ جبکہ کیٹس کو دیہاتی خاندان کا ماحول دستیاب ہوا۔ گھریلو مسائل کے سبب کیٹس کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا اور غالب بھی باقاعدہ تعلیم سے محروم رہے۔ دونوں کے والدین کا سایہ بچپن میں ہی ان کے سر سے اٹھ گیا تھا۔ خاندان کے دیگر افراد نے انکی جیسے تیسے پرورش کی۔ بڑے ہو کر کیٹس نے ایک ڈاکٹر کے مطب میں رہ کر میڈیکل کی تعلیم اور تربیت حاصل کی، جبکہ مرزا غالب نے خود کو دربارداری تک محدود رکھا۔
مرزا غالب اور جان کیٹس کی شاعری ایک قلبی کیفیت کا نام ہے انہوں نے یہ بھی کہاکہ دونوں نے عمر کا بیشتر حصہ معاشی مفلسی میں گزارا۔ دونوں نے اپنے ذوق و وجدان کی رہنمائی میں عصر حاضر کی ضروریات اور دیگر علوم و فنون کا ازخود گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اپنے قریبی عزیزوں کی بیماریوں ،موت اور سماجی حملوں سے عمر بھر چور چور رہے۔
نوجوانی کے دنوں میں دونوں کو عشق ہوا لیکن عشق ناکام کا ماتم بھی دونوں کو کرنا پڑا اور اس کو لے کر جگ ہنسائی ہوئی، دونوں ہی اپنے زمانے کی سیاسی ہنگامہ آرائیوں سے نالاں رہے اور استادان علم و ادب نےبھی ان کی ہمت کو توڑنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ غالب کو ان کے دوستوں نے اور کیٹس کو اس کے احباب کے ساتھ ساتھ اسکے پبلشرز نے بہت اخلاقی، سماجی اور معاشی امداد بہم پہنچائی۔ دونوں کے کلام کی اشاعت ان کی زندگی میں ہی اچھی خاصی ہو چکی تھی لیکن دونوں کو اس کی خاطر خواہ پذیرائی نہ ہونے کا ہمیشہ شکوہ رہا۔ اسی طرح کے اور بہت سے اتفاقات ہیں جو دونوں میں یکساں ہیں اور ان کے تقابلی مطالعے سے بہت مفید نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں:Anjuman e Islam at UN انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی کا اقوام متحدہ میں اظہار خیال
اس کتاب کے تعلق سے سید الہام جعفری ڈیپارٹمنٹ آف انگلش، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کا کہنا ہے کہ مرزا غالب کو عربی فارسی اور اردو ادب کی روایات کا سہارا ملا، جبکہ کیٹس کو صرف انگریزی ادب پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ حالانکہ بعد میں اس نے یونانی ادب واساطیر کا بھی انگریزی زبان میں ہی گہرا مطالعہ کیا اور یہ یونانی ادب اس کے دل و دماغ پر چھا گیا۔ کیٹس کی اچھی شاعری وہی ہے جس میں وہ یونانی دنیا میں خود کو فنا کر دیتاہے۔جبکہ ڈاکٹر زید حسن نے تاریخ ادب کے ان دونوں شہسواروں کے اسی انفرادی، فنی اور سماجی حالات کے تقابل کو علمی گفتگو کا موضوع بنایا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ نہایت فنی پختگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر زیڈ حسن نے فکر غالب کا کیٹس کی شاعری سے تقابل کرکے یہ نتیجہ نکالا ہےکہ یہ دو عظیم شاعر انسانیت کے دائمی جذبات کی کھوج کرتے ہیں اور اکثر ایک ہی راہ پر گامزن نظر آتے ہیں۔ ایک سے ہی خیالات ان کے دماغ میں پیدا ہوتے ہیں، ایک سے ہی دکھوں سے وہ دکھی ہیں اور سکون و اطمینان بھی ایک ہی سے جہان رنگ و بو میں تلاش کرتے ہیں۔ دونوں نے روایت کا احترام کیا لیکن اپنا راستہ الگ بنایا۔ غالب کو بھی کئی طرح کے دکھوں کا سامنا کرناپڑا۔ ذاتی دکھ اور 1857 کے دور کے ظلم و ستم بھی اس کو دیکھنے پڑے،جس کی وجہ سے اس نے غربت،کوفت اور سوز نہانی کی کچھ ایسی تصویریں پیش کیں جو صدیوں تک انسان کے دلوں کو تڑپاتی اور گرماتی رہیں گی۔ اس میدان میں تقریبا یہی رویہ کیٹس کا بھی ہے۔
ڈاکٹر زیڈ حسن کی اصل کتاب ' جان کیٹس اور مرزا غالب' کے نام سے انگریزی میں ہے، جو ان کے ڈی لٹ کے تھیسیس کا خلاصہ ہے۔ کووڈ 19 کے لاک ڈاؤن میں انہوں نے اس انگریزی کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا،ڈاکٹر سید اختیار جعفری نے اس ترجمے کو علمی کتاب کی شکل میں مرتب کرکے 2021 کے آخر میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے 490 صفحات میں شائع کیا ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر زیڈ حسن (ظہیر حسن) کی آدھی زندگی کالج میں انگریزی زبان و ادب پڑھاتے ہوئے گزری ہے۔ وہ ہمارے دور کے ایک بیدار مغز اور اردو، انگریزی، عربی، فارسی اور سنسکرت وغیرہ زبانوں پر قدرت رکھنے والے دانشور ہیں۔ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مرزا غالب اور جان کیٹس کی شاعری کی گہرائی میں اتر کر ان کے گوہر نایاب قاری کے سامنے پیش کیے ہیں۔ اور پھر ان گوہروں کی چمک دمک کا موازنہ اس فنی چابک دستی سے پیش کیا ہے جو آج کے ذوق علم وجدان کا معیار ہے۔ لہذا اس کتاب کا مطالعہ تمام عاشقان غالب کے لیے علمی ترقی و تسلی کا سبب ہوگا۔Dr Zaid Hasan New Book On Mirza And John keats Poetry In Mumbai