ممبئی:بشارت نے کہا کہ پہلے ایسا کچھ نہیں تھا اب بیشتر سوسائٹی اور کارپوریٹ سکیٹر میں اگر سکیورٹی گارڈ تعینات کرنے کے لیے کوئی کہتا ہے تو وہ مسلم سکیورٹی گارڈ کے لیے منع کر دیتے ہیں یا کتراتے ہیں۔ ممبئی ،نئی ممبئی ، تھانے میں ہم اگر اپنا پرپوزل پیش کرتے ہیں تو ہمیں یہ ہماری سکیورٹی ایجینسی کو مسلم یا مسلم ملازمین کے نام پر سائڈ لائن کر دیا جاتا ہے۔
مسلم اور کشمیری سکیورٹی گارڈ تعصب کا شکار بشارت کہتے ہیں کہ ہم سکیورٹی گارڈ کے لیے حکومت یا پولیس کے ذریعه بنائے گئے اصول و ضوابط اور قوانین پر پوری طرح سے عمل کرتے ہیں لیکن کئی بار ہمیں اس طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالانکہ سکیورٹی گارڈ جنہیں چاہیے ہم ان سے یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ آخر مسلم کیوں نہیں چاہیے اس پر وہ کسی طرح کا جواب نہیں دیتے ہیں اس پر ہمیں بھی صبر سے کام لینا ہوتا ہے کیونکہ مارکیٹ میں رہنے کے لیے صبر ضروری ہے اور ہم زبردستی اپنے گارڈ کہیں نہیں لگا سکتے۔
ایسا ہی کچھ برتاؤ کشمیریوں کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ پہلے تو وہ کشمیری اور دوسرا مسلم اس پر لوگ اعتراض کرتے ہیں ہم ایسے میں اُنہیں ضرورت کے مطابق ہی بلاتے ہیں حالانکہ کشمیری گارڈ پڑھے لکھے اور قد کانٹھی سے بھی بہتر ہوتے ہیں لیکن جس طرح سے تعصب کا شکار مسلم ہیں اسی طرح سے کشمیری مسلم بھی ہیں۔ بشارت گزشتہ 30 برسوں سے سکیورٹی ایجنسی چلاتے ہیں لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے حالات پہلے کے برعکس ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کی سیکیورٹی گارڈ کا مطالبہ کرنے والے مسلم سیکیورٹی گارڈ کی تعیناتی کو لیکر کیوں کتراتے ہیں جبکہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے کوئی دقت نہیں ہے
بشارت چودھری کہتے ہیں کہ ہم اس پیشے سے 1990 سے وابستہ ہیں پہلے ہمارے پاس 600 سے زیادہ سکیورٹی گارڈ ہوتے تھے اب 120 تک یہ تعداد محدود ہو گئی ہے پہلے حالات بہت بہتر تھے مل جل کر کام ہوتا تھا اور ہر ایک کی روزی روٹی چلتی تھی لیکن اب حالات بہت بدل گئے لوگ نام لیکر نہیں کہتے لیکن مسلم سکیورٹی گارڈ ہونے کے سبب کئی خامیاں نکل کر انھیں رکھنے سے انکار کے دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:Head Constable Bags PhD: ہیڈ کانسٹیبل نے دوران ملازمت اردو میں پی ایچ ڈی کیا