لیکن بروقت علاج نہ ملنے سے بیالیس سالہ ماریہ شیخ موت ہوگئی، ماریہ کے اہل خانہ ان کی موت کا زمہ دار اس بیماری کو نہیں مانتے بلکہ وہ ممبئی کے ان بڑے پانچ اسپتالوں کو ذمہ دار مانتے ہیں جہاں وہ ماریہ کی موت سے کچھ دیر قبل یعنی زندگی کے آخری لمحوں میں ماریہ کو لے کر علاج کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے۔
ماریہ کے اہلخانہ کے مطابق ممبئی کے ایک بھی اسپتال کو ماریہ کی حالت پر ترس نہیں آیا، اس دوران ان کے رشتہ داروں نے ڈاکٹروں کی کافی منت سماجت کی لیکن ڈاکٹروں اور اسپتال کے ذمہ داران جو خود پہلے سے ہی کورونا وبأ کی دہشت کا شکار ہو چکے تھے انھوں نے علاج کرنے سے صاف منع کردیا۔
بیالیس سالہ ماریہ شیخ کی علاج ہونے پر موت ڈاکٹروں نے ماریہ کی بیماری کو دیکھتے ہوئے انھیں بھی کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی صف میں کھڑا کر دیا لیکن یہاں نہ تو کورونا کا علاج کیا گیا اور نہ ہی ماریہ کی سائنَس جیسی بیماری کا۔
اسپتال اور ڈاکٹروں کی بے حسی اور سفاکی کی یہ داستاں عام دنوں میں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن کرونا وبأ نے اسپتال اور ڈاکٹروں کو مریضوں کو نہ کہنے کا ایک موثر ہتھیار فراہم کر دیا ہے جس کی وجہ سے اب ڈاکٹر مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کرنے میں بالکل بھی نہیں جھجھکتے۔
ماریہ نے اپنے علاج کے لیے جن پانچ اسپتالوں کے چکر کاٹے ان میں جے جے اسپتال بھی شامل ہے جہاں حال ہی میں کرونا وبأ کے لیے بہتر طبی خدمات کے سبب ہیلی کاپٹر سے پھولوں کی بارش کی گئی تھی۔