کورونا وبا نے یہ ثابت کردیا کہ انسان کے بس میں کچھ بھی نہیں۔ قدرت کی ذرا سی آزمائش نے انسانی زعم کو خاک میں ملادیا۔
جیتندر دُوساد نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کے والد کو کوئی مسلمان مکھ اگنی دے گا اور عظمت علی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ انھیں شمشان گھاٹ میں لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنی ہوگی۔
وقت کی مار نے انسان کو یہ سبق اچھی طرح پڑھا دیا کہ ’’یاد رکھ سب سے پہلے تو انسان ہے ‘‘، اس کے بعد ہندو یا مسلمان ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اورنگ آباد کا معین مستان گروپ پچھلے 14 ماہ سے کورونا کے مریضوں کی آخری رسومات ادا کرنے میں مصروف ہے۔ اب تک تین ہزار سے زائد افراد کی آخری رسومات ادا کر چکی ہے۔
معین مستان گروپ میں دو درجن سے زائد رضاکار شامل ہیں، جو فی سبیل اللہ یہ کام کررہے ہیں۔ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے انھیں پی پی ای کٹ اور دیگر سامان مہیا کیا جاتا ہے، لیکن ایسی صورتحال میں جب مہلوک مریض کے قریبی رشتہ دار مہلوک کے قریب جانے سے کتراتے ہیں ایسے میں یہ رضاکار آگے بڑھ کر یہ خدمات انجام دیں رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:
مہلوک کووڈ۔19 سے متاثرہ ہونے کی صورت میں اس کے اپنے قریبی بھی اس سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں، ایسے حالات میں معین مستان گروپ کے رضا کار جو خدمات انجام دیں رہے ہیں ان کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔