ممبئی کی محمد علی روڈ بھنڈی بازار ماہ مقدس میں مقامی ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا مرکز ہے۔ محض 500 میٹر کے اطراف میں لگائی جانے والی یہ بازاریں، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اسی لئے ادنیٰ سے اعلیٰ یہاں ان بازاروں میں تجارت کرتے ہیں۔ ماہ مقدس کے اس ایک ماہ میں ہونے والی اس آمدنی سے وہ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھرتے ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کی اس ایک ماہ میں ہونے والی آمدنی پورے برس کے لئے ان کا حساب کتاب بہتر بنائے رکھتی ہے۔
یوں تو مینارہ مسجد کی یہ روایتی بازار 250 برس سے اسی شان و شوکت کے ساتھ روشنی اور قمقموں میں ڈوبی رہتی ہے۔ کورونا کے سبب ہر جگہ کی طرح اس بازار میں بھی قفل لگا ہوا تھا۔ کورونا پابندوں کے ہٹنے کے بعد جب دوبارہ یہ روایتی بازار کھلی تو یہاں آنے والوں کی تعداد پہلے سے زیادہ دیکھی گی۔ مسجد کی اس گلی میں مٹھائیوں اور رمضان کصوصی اشیاء کے لئے کئی دوکانیں ہیں جبکہ دوسری جناب مغلائی، چائنیز اور روایتی کھانوں کی ہوٹلیں ہیں۔ جو افطار سے لیکر سحری تک ایسے ہی کھلی رہتی ہیں۔ یہاں روزانہ ایک لاکھ سے زائد لوگوں کی آمد ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہاں ساندل، مالپوہ فیرنی، ناریل شیک، حلیم، دہی وڈے، آلو چنے، بکرے کا سوپ سمیت مٹن کی بنی کئی قسم کی کھانے یہاں دستیاب ہیں۔ لیکن ان سب کے بیچ خوانچہ فروشوں کی بڑی تعداد مینارہ مسجد کی اس کھاؤ گلی میں ایک زمانے سے موجود ہے۔
Minara Masjid مینارہ مسجد کی کھاؤ گلی کی رونقیں برقرار
ممبئی کے مینارہ مسجد کی بازار 250 برس سے اسی شان و شوکت کے ساتھ روشنیوں میں ڈوبی رہتی ہے۔ کورونا کے وقت ہر جگہ کی طرح اس بازار میں بھی قفل لگا ہوا تھا۔ کورونا پابندوں کے ہٹنے کے بعد جب دوبارہ یہ بازار کھلی تو یہاں آنے والوں کی تعداد پہلے سے زیادہ دیکھی گی۔ پڑھیں پوری خبر۔
محمد اسماعیل اترپردیش کے سنت کبیر نگار کے رہنے والے ہیں۔ دور طفل سے ہی انہوں نے آلو اور چنے فروخت کرتے تھے۔ عمر کی پچاس بہاریں دیکھنے کے بعد محمد اسماعیل کہتے ہیں کہ وہ 10 پیسے سے یہ چیزیں بیچنے کا آغاز کیا اور آج 25 روپے ہو چکا ہے۔ 10 پیسے سے 25 روپے تک کے اس سفر کی گواہ یہ کھاؤ گلی ہے۔ شیر بانو ریحانہ بانو دو بہنیں بھانڈولی بناکر یہاں فروخت کرتی ہیں۔ ایک چھوٹے سے ٹیبل میں اس اہل خانہ کی آمدنی واحد ذریعہ جو پورے جوش خروش کے ساتھ اس ماہ مقدس میں اس گجراتی پکوان کو بناتی ہیں۔ یہ کام ان کی والدہ زبیدہ بانوں کرتی تھیں، ان کے انتقال کے بعد ان حجابی بیٹیوں نے اسے سنبھالا اور اب اس کھاؤ گلی میں لوگوں بھانڈولی فروخت کرتی ہیں، یہاں اسے کھانے کے لئے دور دراز سے لوگ آتے ہیں۔ مینارہ مسجد کی اطراف میں یہ بازاریں صرف بازار ہی نہیں ہیں بلکہ محنت کش عوام اور ایسی خواتین جو جنکی حمیت کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا گوارہ نہیں کرتی۔ ان کے لئے یہ بازار کی نعمت سے کم نہیں جہاں یہ خوتنین مردوں کے شانہ بشناہ اور قدم سے قدم ملا کر کام روبار کرتی ہیں۔