مہاراشٹر سماجوادی پارٹی رہنما ایوان کی توجہ جنسی زیادتی اور دست درازی کے کیسوں کی یاد دلاتے ہوئے یہ واضح کیا کہ خواتین پر ہونے والے جرائم میں یوپی کے بعد مہاراشٹر سر فہرست ہے۔2017-18 ء میں خواتین پر ہونے والے جرائم میں بے تحاشہ اضافہ درج کیا گیا ہے اور گزشتہ پانچ برسوں میں یہ اعداد و شمار مزید بڑھ گئے ہیں 83 فیصد جنسی زیادتی اور 95فیصد دست رازی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
بیرون ممالک میں جنسی زیادتی اور دست درازی کا کوئی معاملہ پیش نہیں آتا کیونکہ یہاں ان جرائم کے لیے سخت سزائیں موجود ہیں ہمارے ملک جب کبھی عصمت دری اور دست درازی کا معاملہ ہوتا ہے تو آواز بلند کی جاتی ہے اور پھر معاملہ التواء کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے ایسے حساس کیسوں کے لیے علیحدہ کورٹ قائم کر کے 3 سے 4 ماہ میں اس کا تصفیہ کیا جائے اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو نائٹ شب میں کورٹ چلائے جائیں۔ سیشن کورٹ میں آج بھی 15 فیصد ججوں کی کمی ہے۔
انہوں نے جنسی زیادتی اور دست درازی کے واقعات میں اس لیے بھی اضافہ ہوا کہ کیونکہ آج فحاشیت عام ہوگئی ہے ہر کسی کے پاس موبائل موجود ہے بچوں کے ہاتھوں میں بھی موبائل ہے اور اس میں جو مشمولات اور مواد ہوتے ہیں اس سے ہی عریانیت عام ہوتی ہے اور پھر جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے اس پر بھی سرکار کو توجہ دینی چاہیے۔ ممبئی شہر میں منیشات پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایم ڈی سمیت دیگر منیشات کی اشیاء فروخت ہوتی ہے اور نوجوان نسل اس سے تباہ و برباد ہوگئی ہے اس پر پابندی عائد کر نے کی ضرورت ہے۔
ابو عاصم نے سری کرشنا کمیشن رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں جس کی اکثریت ہوتی وہاں اس کو اتنی حصہ داری دی جاتی ہے اس لیے پولیس فورس میں بھی مسلمانوں کو تناسب کے مناسبت سے حصہ داری دی جائے ان وجوہات کو بھی معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیوں مسلم نوجوان پولیس فورس میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ اسکول ایجوکیشن اور سروشکسا ابھیان کا فائدہ نہیں ہو رہا ہے سی اے اے, این آر سی اور این پی آر کو چھوڑو کیونکہ اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تعلیم کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ غریب والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے ایسے بچوں کو لیبر قانون کے تحت چلڈرن ہوم نہ بھیجا جائے جو بحالت مجبوری مزدوری کرتے ہیں جبکہ ان کی تعلیم کی عمر ہوتی ہے اس میں مزدوری کر وانے والوں پر کیس درج کیا جائے بچوں کی تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور غریب والدین کی مدد کر نی چاہیے ۔