ممبئی یونیورسٹی کے کالینہ کیمپس کو بچوں کے کووڈ سینٹر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہ 12 برس سے کم عمر کے بچوں کے لیے ہے یہاں بچوں کی آن لائن تعلیم سمیت ہر سہولت کے پیش نظر تفریح اور لطف اندوزی کی ہر چیز بنائی گئی ہے۔
مہاراشٹر میں کورونا وائرس کی تیسری لہر اس کووڈ سینٹر پر وائی فائی، ٹی وی اور آکسیجن کے علاوہ 24 گھنٹے ڈاکٹر کی خدمات مہیا کرائی جائے گی جب کہ شیر خوار بچوں کے لیے دووھ پلانے کے لیے فیڈنگ روم کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔
پانچ سو اسکوائر فٹ میں پھیلا بچوں کا یہ کووڈ سینٹر بیشک نایاب ہے لیکن سب کی یہی دعا ہے کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر نہ آئے اور نہ ہی اس سینٹر کی ضرورت محسوس ہو۔
اس خبر کے ذریعہ ہم آپ کو نہ تو خوفزدہ کررہے ہیں اور نہ ہی کسی کشمکش میں مبتلا کررہے ہیں بلکہ اس حقائق سے آگاہ کے رہے ہیں جس سے آپ بےخبر ہیں کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر جس کے تعلق سے حکومت مہاراشٹر نے وقت کے پردے کو چاک کرکے کافی آگے تک دیکھا ہے۔ اس لئے آپ سنجیدہ ہوجائیں۔ اس وبا کے پیش نظر احتیاطی قوانین اور احتیاطی تدابیر پر عمل کریں کیونکہ اس وبا کی زد میں اس بار بزرگ یا نوجوان نہیں بلکہ دور طفل میں مستقبل کا خواب دیکھنے والے بچے ہیں جن کے شانوں پر ایک نئے بھارت کی ذمہ داری ہے اور اُن کی حفاظت کی ذمہ داری ہم سب کے کندھوں پر ہے اس لیے احتیاط سے کام لیا جائے۔
اسی ہفتے ممبئی کے آگری پاڑہ علاقے میں 95 بچوں کا ٹیسٹ ہوا جس میں 22 بچوں کی پازیٹیو رپورٹ نے سبھی کو چونکادیا ہے۔
اس کے علاوہ ممبئی کے مانخورد علاقے کے چلڈرن ہوم میں 102 بچوں کا ٹیسٹ ہوا جس میں 18 بچے پازیٹیو پائے گئے۔ ایک ہفتے کے دوران یہ دو واقعات بے حد چونکا دینے والے ہیں بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ خطرے کی گھنٹی ہے جس کی آہٹ محسوس کی جاسکتی ہے۔
اسی آہٹ کو حکومت مہاراشٹر نے محسوس کیا ریاستی وزیر صحت راجیش ٹوپے نے واضح کردیا کہ بچوں کو انفیکشن ضرور ہوتا ہے لیکن اس میں سنجیدہ ہونا اہم ہے۔ اس لیے حکومت نے ہر ضلع کلکٹر کو فرمان جاری کیا ہے کہ 5 ستمبر سے پہلے ویکسینیشن کا کام مکمل کیا جائے تاکہ تعلیمی اداروں کو کھولا جاسکے جہاں کورونا کی وجہ سے قفل لگا ہوا ہے۔
راجیش ٹوپے نے یہ بھی واضح کر دیا کہ تعلیمی ادارے کھولنے کا پہلا قدم اٹھایا جا رہا ہے حالات آگے جیسے بھی ہوں گے اس لحاظ سے فیصلے لئے جائیں گے۔
واضح رہے کہ مہاراشٹر حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی برتی ہے لاک ڈاؤن اب اَن لاک میں تبدیل ہو چکا ہے لیکن ان سب کے درمیان حکومت کے ذریعه بنائے گئے کووڈ قوانین اور احتیاتی تدابیر کو ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کیونکہ پہلی اور دوسری لہر کی زد میں نہ جانے کتنے لوگ کورونا کی زد میں آکر موت کے شکار ہوگئے۔