مراٹھواڑا: "ہیمو فیلیا" کے شکار 550 بچوں کی زندگیوں کو خطرہ
زندگی بچانے کے لیے درکار ضروری دوائیں مراٹھواڑا علاقے میں گزشتہ دیڑھ سال سے عدم دستیاب ہیں
خون کی خرابی کے باعث پیدا ہونے والی ایک ناقابل علاج مہلک بیماری "ہیمو فیلیا" (Hemophilia) کے شکار مراٹھواڑا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 550 سے زائد بچوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ کیوں کہ انکی زندگی بچانے کے لیے درکار ضروری دوائیں مراٹھواڑا علاقے میں گزشتہ دیڑھ سال سے عدم دستیاب ہیں، ان دواؤں کو فوری فراہم کرنے کےساتھ ساتھ اس مہلک اور جان لیوا مرض کے شکار بچوں کو دیگر سہولتوں کی فراہمی کا مطالبہ "ہیمو فیلیا" بیماری کے شکار بچوں کے سرپرستوں کی تنظیم "ہیمو فیلیا سوسائٹی آف مہاراشٹرا، اورنگ آباد شاخ" کی جانب سے کیا گیا۔
اورنگ آباد میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں تنظیم کے ذمہ داروں نے الزام لگایا کہ حکومت ان کے بچوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔ کیونکہ ایک دیڑھ سال کے دوران بیسوں بار حکومت کی توجہ اس جانب دلائی گئی کی مراٹھواڑا علاقے میں اس غیر معمولی اور تکلیف دہ بیماری کے شکار بچوں کو لگنے والے دواؤں کی فراہمی کو بحال کیا جائے اور ہر ضلع کے سرکاری اسپتال میں انھیں مناسب مقدار میں مہیا کیا جائے۔ مگر حکومت نے اب تک کوئی توجہ نہیں دی۔ اور حکومت کی اس غفلت کے باعث اب تک 5 بچوں کی موت ہو چکی ہے۔
"ہیمو فیلیا سوسائٹی آف مہاراشٹرا، اورنگ آباد شاخ" کے نائب صدر محمد ضیاء نے بتایا کہ جینیاتی خرابی کے باعث پیدا ہونے والی ہیموفیلیا ایک غیر معمولی عارضہ ہے جس میں خون عام طور پر جم نہیں پاتا ہے کیونکہ اس میں خون جمنے کے مناسب پروٹین (جمنے کے عوامل) کی کمی ہوتی ہے۔ ہیموفیلیا کی وجہ سے، کسی چوٹ کے بعد سے زیادہ وقت تک خون بہہ سکتا۔ اور اگر جسم کے اندرونی حصوں میں ہا کسی بھی چوٹ کے باعث بیرونی حصوں سے اگر خوں کا رساؤ شروع ہوا تو روکنا (جمنا) مشکل ہوتا ہے اور فوری طور پر انھیں ایک مخصوص انجیکشن لگانا ضروری ہوتاہے۔ اور اسی ضرورت دن رات میں کسی بھی وقت پیش آسکتی ہے۔
مقامی طور پر علاج کی سہولت مہیا نہ ہونے کی وجہ سے اگر کسی بچے کے جسم سے خوں رسنا شروع ہو جائے تو اسے ممبئی یا پونا لیکر بھاگنا پڑتا ہے۔ مراٹھواڑا علاقے کے لیے علاج کا صرف ایک ہی سینٹر ہے اور وہ اورنگ آباد میں ہے، اور اس کے اوقات بھی محدود ہیں، صبح 9 سے دوپہر 2 بجے تک ہیں، اور اس 'ڈے کیئر سینٹر' میں بھی گزشتہ سال بھر سے علاج کو کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس مرض کو لگنے والی دوا اور انجکشن سال بھر سے دستیاب نہیں ہیں۔ انھوں نے وضاحت کی کہ باہر کہیں بھی خانگی طور پر نہ تو اس کی دوائیں ملتی ہیں اور نہ ہی کسی خانگی اسپتال میں اس کا علاج ممکن ہیے۔ سرکاری دواخانوں کے علاوہ اس کا علاج کسی بھی خانگی دواخانے میں نہیں کیا جاتا اور نہ یہ کسی بھی دوا کی دوکان پر یہ دوائیں اور انجکشن ملتے ہیں۔
تنظیم کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت فوری طور اس جانب توجہ دے اور اورنگ میں صرف دن کے وقت چند گھنٹوں کے لیے جاری رہنے والے علاج کے مرکز کو دن رات چوبیس گھنٹوں کے لیے کھلارکھا جائے اور ویاں تمام ضروری ادویات مہیا کرئی جائیں۔ اس موقع پر ریلوے بورڈ کے رکن سید عبدالرحمن کو بھی ایک مکتوب دے کر محکمہ ریلوے سے مطالبہ کیا گیا کہ اس مرض سے متاثرہ بچوں کو سفر کے لیے سہولت اور مفت پاس مہیا کیئے جائیں۔