ممبئی: میڈیا میں بھی روز مقدمہ کو لیکر بحث و مباحثہ ہوتا ہے جس میں بحث کرنے والے گیان واپی مسجد Gyanvapi Masjid کے سلسلہ میں کماحقہ واقفیت نہیں رکھتے جس کی بنا پر آگے چل کر مقدمہ کی کارروائی پر غلط اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ ٹی وی بحث و مباحثہ میں جانب دار میڈیا مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے ایسے لوگوں کو پیش کرتا ہے جنہیں ناتو مقدمہ کی نوعیت کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی مقدمہ کی پیچیدگیوں کی انہیں سمجھ ہوتی ہے۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے آج ممبئی میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مسلم نمائندوں کو گیان واپی مسجد اور دیگر مساجد پر بحث کرنے کے لیے ٹی وی چینلوں پر جانامناسب نہیں ہے، بغیر کسی تیاری کے بحث میں حصہ لینے والوں کو گودی میڈیا کے شکنجے سے بچنے کے لیے ایسے پروگرام میں شرکت نہیں کرنا چاہیے۔
گلزار اعظمی Gulzar Azmi نے کہا کہ ایک جانب جہاں انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی ضلعی عدالت میں مقدمہ کی پیروی کررہی ہے وہیں سپریم کورٹ میں وشو بھدرا پجاری پروہت مہا سنگھ اور دیگر نے پلیس آف ورشپ قانون 1991 کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے کہاہیکہ یہ قانون غیر آئینی ہے لہذا اسے ختم کیا جائے تاکہ گیان واپی مسجد سمیت دیگر مساجد کومندروں میں تبدیل کیا جاسکے۔معاملے کی حساسیت اور اہمیت کے پیش نظر صدرجمعیۃ علماء ہندمولانا ارشد مدنی کی خاص ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند نے وشو بھدرا پجاری پروہت مہا سنگھ اور دیگر کی جانب سے داخل پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیے مداخلت کار کی درخواست سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کردی ہے جس کا نمبر 54990/2020 IA- ہے۔ اس پٹیشن پر ایک مرتبہ 10جولائی 2020 کو سماعت عمل میں آئی تھی، جمعیۃ علماء کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون عدالت میں پیش ہوئے تھے۔اور اب 19 جولائی 2022کو ایک مرتبہ پھر اس پٹیشن پر سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت متوقع ہے۔