اس مسجد کا وجود سنہ 1860 میں عمل میں آیا۔ مسجد میں خوبصورتی سے تراشے گئے باغ، باریک میناکاری والی ایرانی موجیک ٹائلس، تراشے ہوئے سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی ہے اور دیواروں پر قرآن پاک کی آیتیں کندہ ہیں۔
150 برس قدیم یہ مسجد اپنی شان و شوکت کے ساتھ ایک پرسکون حالت میں آج بھی ویسی ہی ہے۔ مسجد کی قالینیں، فانوس اور طرز تعمیر میں ملک ایران کا کافی اہم رول رہا۔
حاجی محمد حسینشیراز نے جو کہ ایران کے شہر شیراز کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے سنہ 1860 میں ایرانی طرز پر اس کی تعمیر کی تھی۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس مسجد میں دو میناریں ہیں، جبکہ گنبد نہیں ہے۔
اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ محراب کی بنیاد کربلا کی مٹی سے رکھی گئی ہے۔ بھنڈی بازار کے تاجروں نے اس وقت اس مسجد کی تعمیر کے لئے مالی مدد بھی بڑھ چڑھ کر کی تھی۔
ایرانی طرز تعمیر کی شاہکار مسجد دراصل ایران کے شیراز شہر میں مساجد اسی طرز پر تعمیر کی گئی ہیں جن میں گنبد کا تصور نہیں ہوتا بلکہ دو طویل مناریں ہی مسجد کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی ہیں۔
حاجی محمد حسین شیراز نے شیراز کی ہی طرز پر اس مسجد کی تعمیر کرائی ہے۔ یہ مسجد شیعہ فرقے کے لئے مختص کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آنے والے شیعہ فرقے کی تعداد ہی دکھائی دیتی ہے۔
باوجود اس کے یہاں سیاحوں کا مجمع لگا رہتا ہے۔ مسجد میں عام دنوں میں وضعداری اور عبادات اور محرم کی مجالس کا اہتمام کیا جاتا تھا، لیکن کورونا وباء کے سبب ہر عبادت گاہوں کی طرح یہاں بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کی مسجد کے صدر دروازے پر ہی قفل لگا دیا گیا ہے۔
ایرانی طرز تعمیر کی شاہکار مسجد مزید پڑھیں:
ممبئی کے مسلمانوں میں داؤدی بوہرہ، کھوجہ اور ایرانیوں کے علاوہ اہل تشیع کی خاصی تعداد ہے۔ زیادہ تر لوگ ملازمت سے وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونگری، بھنڈی بازار، محمد علی روڈ، مجگاؤں، میرا روڈ، ممبرا اور بھیونڈی جیسی جگہوں پر لوگ مقیم ہیں۔