اردو

urdu

ETV Bharat / state

ہندوستانی مسلمان امسال حج سے محروم

ممبئی میں حج کمیٹی آف انڈیا کے چیف ایگزیکٹیو افسر مقصود احمد خان نے اس بات کی تصدیق کی کہ سعودی عرب کی وزارت برائے حج اور مذہبی امور، حج 2020 کے منسوخ کیے جانے اور اندرون ملک محدود پیمانے پر حج کیے جانے کا اعلان کیا ہے۔

hajj
hajj

By

Published : Jun 23, 2020, 10:21 PM IST

امسال حج میں سعودی عرب میں مختلف ممالک کے مقیم شہری شرکت کرسکیں گے، اس طرح بھارت سے بھی تقریباً سوا لاکھ عازمین حج امسال حج بیت اللہ نہیں جاسکیں گے۔

ممبئی میں حج کمیٹی آف انڈیا کے سی ای او مقصود احمد خان کے مطابق 15 ہزار درخواست گزار نے حج کمیٹی آف انڈیا کے جمع رقم کی واپسی کے اعلان کے بعد منسوخی کی درخواست دے دی ہے اور سعودی عرب کے حج منسوخی کے اعلان کے بعد باقی عازمین حج کی رقم انہیں خود بخود واپس کردی جائے گی۔

مہاراشٹر اسٹیٹ حج کمیٹی کے سابق چیئرمن جمال صدیقی نے مطالبہ کیا ہے کہ امسال جن عازمین حج نے درخواستیں دی ہیں انہیں قرعہ اندازی کے بعد آئندہ برس حج کی ادائیگی کی اجازت دی جائے تاکہ انہیں دوبارہ درخواستیں دینے کے مرحلے سے نہ گزرنا پڑے۔

مقصود احمد خان نے مزید کہا کہ 'حج کمیٹی آف انڈیا نے حج منسوخی کی ساری تیاری کرلی تھیں لیکن اگر حج کا اعلان کردیا جاتا تو کافی دشواری پیش آسکتی تھی، شاید رہائش وغیرہ کے سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں ہوسکی تھی اور ٹرانسپورٹیشن وغیرہ کے تعلق سے بھی اقدام نہیں ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ 180 سے زائد ممالک میں پھیلے کورونا وائرس کے پیش نظر محدود تعداد میں اندرون ملک(سعودی عرب) سے مختلف ممالک کے شہریوں کو حج کا موقع دیا جائے گا۔

روز بروز کورونا وائرس کے خطرات میں اضافہ کے پیش نظریہ فیصلہ کیا گیا ہےکہ سعودی عرب میں مقیم غیر ملکی باشندوں کی محدود تعداد کو حج کی منظوری دی جائے اور عازمین حج کی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے جبکہ انسانی جان کے تحفظ سے متعلق شریعت کے مقاصد پورے کیے جاسکیں۔

واضح رہے کہ امسال سعودی عرب حکومت نے حج بیت اللہ کی منسوخی کا عارضی اعلان مارچ کے دوران ہی کردیا تھا لیکن دنیا بھر میں اور خود سعودی عرب میں کورونا وائرس جیسی وبائی بیماری کے اثرات کی وجہ سے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا تھا کہ امسال کا حج منسوخ کردیا جائے یا تعداد میں کمی کردی جائے اور اس کا باقاعدہ اعلان کیا جاچکا ہے۔

چونکہ حج کی تیاریوں کے سلسلہ میں تقریباً ایک مہینہ ہی رہ گیا ہے اور اب ممکن نہیں ہے کہ سعودی حکام اور دیگر ممالک اتنی بڑی تیاری مکمل کرلیں۔

دو ہفتے قبل حج کمیٹی آف انڈیا کے سی ای او مقصود احمد خان نے عازمین حج سے گزارش کی ہے کہ وہ اپنی جمع پیشگی رقم واپس لے سکتے ہیں۔

اس درمیان پندرہ ہزار عازمین نے منسوخی کی درخواست دے دی تھی ،حج کی منسوخی کے سلسلے میں حج پِلگرِمس سوشل ورکرز گروپ کے روح رواں ایڈوکیٹ قاضی مہتاب حسینی کے مطابق گروپ تقریباً 55 سال سے حجاج کرام کی خدمت کرتا ہے اور اس عرصے میں چند واقعات اور حادثات کے علاوہ حج کی منسوخی نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم جائزہ لیں تو گزشتہ تین چار عشرے میں حج کو منسوخ کیے جانے کی کوئی تاریخ نہیں ملتی ہے لیکن امسال اگر حج منسوخ کیا گیا تو ایسا گزشتہ نصف صدی میں پہلی بار ہوگا۔

بتایا جاتا ہے کہ حج بیت اللہ کی منسوخی پہلی بار نہیں ہوگی، سعودی عرب میں واقع شاہ عبد العزیز فاؤنڈیشن برائے ریسرچ اینڈ آرکائیوز کے مطابق تاریخ میں مختلف حالات، واقعات اور وبائی بیماریوں کی وجوہات سے حج بیت اللہ تقریباً 40 مرتبہ منسوخ کیا جاچکا ہے یا کسی موقع پر حجاج کرام کی تعداد انتہائی کم بھی رہی ہے۔

ان میں وبائی بیماریوں اور بغاوت کے معاملات بھی پائے جاتے ہیں اور محدود شرکت کی اجازت دی گئی ہے جیسا کے اس بار کیا گیا ہے۔

حج کمیٹی آف انڈیا کے سابق سی ای او شبہیہ احمد نے کہا کہ 'حج کے دوران جمرات کے دوران بھگڈراور منٰی میں آتشزدگی کے واقعات پیش آئے، جن میں 1997 کا آتشزدگی کا واقعہ بھی ہے اور شبہیہ احمد حج کمیٹی کے سی ای او کے عہدہ پر فائز تھے اور انہیں فوری طور پر وزارت امور خارجہ نے سعودی عرب بھیج دیا تھا تاکہ انتظامی امور کی نگرانی کریں۔ اس دور میں حج بیت اللہ کی تیاری کا مرکز عروس البلاد ممبئی ہی رہا ہے۔

مہاراشٹر حج کمیٹی کے سابق چیئرمین جمال صدیقی نے باقاعدہ طور پر حج کی منسوخی کا اعلان کرنے اور درخواست گزار عازمین حج کو ہی آئندہ سال حج بیت اللہ بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے امسال کے عازمین حج کی جمع رقم کو فوری طور پر واپس کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے تاکہ اس رقم پر سود سے کمیٹی فائدہ نہ اٹھائے۔

حج 2020 کے سلسلہ میں جو خبر موصول ہوئی ہے وہ تشویشناک ہے، عالمی سطح پرپھیلی وبائی بیماری کووڈ 19کے پیش نظر امسال مارچ میں ہی مقدس سرزمین مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی کو عام نمازیوں کے بند کردیا گیا۔

دراصل سعودی حکام نے حرمین شریف کو زائرین کے لیے بند کردیا تھا لیکن پھر جزوی منظوری دے دی گئی۔

واضح رہے کہ سعودی عرب میں اب تک متعدد کورونا وائرس کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے اور مستقبل میں اس تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔ ہر سال 20 لاکھ سے زیادہ افراد حج کا مقدس فرض ادا کرتے ہیں جو کہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے۔

حج کے بارے میں معلومات، ناصر خسرو، ابن جبیر اور ابن بطوطہ سے ملتی ہے، جنہوں نے خود حج ادا کیا اور پھر 'سفر نامہ حج' لکھ کر اس سفر کو محفوظ بھی کیا۔

اسلامی تاریخ میں اس سے پہلے بھی بیماری، تنازعات، ڈاکہ زنی، حملوں یا دیگر وجوہات کی بنا پر حج کو متعدد بار منسوخ کیا چکا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ حج کی سب سے پہلے اور سنگین منسوخی 10 ویں صدی عیسوی میں ہوئی تھی جو مکہ میں ایک مبہم فرقے کے مقدس مقام پر قبضہ کرنے کے بعد اسلامی تقویم کی تیسری صدی کے مطابق تھا۔

قرمیان مشرقی عرب میں مقیم ایک انتہا پسند فرقہ تھا جس نے ابو طاہر الجنبی کے تحت اپنی ریاست قائم کی تھا۔ ان کا عقیدہ نظام اسماعیلی شیعہ اسلام پر مبنی تھا جس میں نسلی عنصر شامل تھے اور ان کا معاشرہ مساوات یعنی کمیونزم پر مبنی تھا۔

یورپ کے دانشوران ایک بڑے علاقے پر قابض واحد کمیونسٹ معاشرہ قرار دیتے ہیں۔ سنہ 930 میں ابو طاہر نے حج کے دوران مکہ پر حملہ کردیا۔ تاریخی احوال کے مطابق قرمطینیوں نے اپنی کارروائی میں 30 ہزار عازمین حج کو لقمہ اجل بنا دیا تھا اور ان کی لاشوں کو مقدس زمزم کے کنویں میں پھینک دیاتھا۔

اس کے بعد انہوں نے کعبہ سے حجر اسود کو بھی چرا لیا اور اپنے ساتھ لے گئے تھے اس واقعہ کے بعد کئی برسوں تک حج معطل رہا۔

عازمین حج پر یہ پہلا پرتشدد حملہ نہیں تھا۔ اس سے قبل سنہ 865 میں اسماعیل بن یوسف جسے الصفق کے نام سے جانا جاتا ہے، جس نے خلافت عباسی کے خلاف بغاوت کی قیادت کی تھی، مکہ کے قریب عرفات پہاڑ میں جمع ہوئے زائرین کا قتل عام کیا تھا، اور حج کو منسوخ کرنے پر بھی مجبور کیا۔

ایک بار سنہ 1000 عیسوی میں حج کو زیادہ پیش گوئی اور سفر کے ساتھ وابستہ اضافے کے اخراجات کی وجہ سے منسوخ کردیا گیا تھا، صدیوں میں پیش آنے والے چھوٹے موٹے واقعات کے سبب محدود پیمانے پر حج کی ادائیگی کی گئی لیکن سنہ 1831 میں بھارت میں طاعون کی وباء پھیلنے کے نتیجے میں سینکڑوں زائرین حج کی موت واقع ہوئی تھی۔

اس کے بعد سنہ 1837 سے سنہ 1892 کے درمیان مختلف انفیکشن نے سینکڑوں حجاج کرام لقمہ اجل بنتے رہے۔ حج کے دوران اکثر انفیکشن پھیلتے ہیں۔ جدید دور سے پہلے سعودی حکام بہت زیادہ پریشانی کا شکار رہتے تھے، ہزاروں زائرین قریبی حلقوں میں اکٹھے ہوتے تھے اور بعض اوقات جان لیوا بیماریوں کا مناسب علاج بھی نہیں کرتے تھے۔

سنہ 1987 کے حج کے بعد گردن توڑ بخار نے اس وقت عالمی وبا کی شکل اختیار کر لی تھی، جب حجاج اس بیماری کو اپنے اپنے ممالک میں واپس لے گئے۔ اب یہ ویزا کی لازمی شرط ہے کہ مخصوص بیماریوں کے خلاف ویکسین کرا لی جائے۔

سنہ 2010 کی شرائط میں زرد بخار، پولیو اور انفلوئنزا کی ویکسین بھی لازمی قرار دی گئی ہیں۔

سنہ 2013 میں سعودی حکومت نے شدید بیمار اور بوڑھے افراد کو اس سال حج ملتوی کرنے کی درخواست کی اور میرس (مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈروم) بیماری کی وجہ سے حجاج کی کل تعداد میں بھی کمی کر دی گئی تھی۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details