دونوں پیروں سے معذور ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے والی روشن جہاں نے ایم ڈی کی بھی ڈگری حاصل کر لی ہے۔ وہ پیتھالوجی میں ایم ڈی کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر روشن کو ہڈیوں کا ٹیومر بھی ہے لیکن اس کی کوئی بھی کمزوری ان کے خوابوں کی راہ میں حائل نہیں ہو سکی۔ 29 سالہ روشن نے ایم ڈی کی ڈگری حاصل کرنے پر خوشی کا اظہار کیا۔'
روشن کہتی ہیں کہ میرے لیے یہ کرنا مشکل تھا نہ ممکن نہیں تھا،'میرے لیے یہ کرنا مشکل تھا لیکن نہ ممکن نہیں تھا، میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں ہار نہیں مانوں گی اور آج میں معذوری اور بیماری کو مات دے کر اس مقام پر پہنچی ہوں۔'
ہم آپ کو بتا دیں کہ روشن جہاں کو کچھ ماہ قبل مہاراشٹر کی وزیر تعلیم ورش گائیکواڑ کے ہاتھوں اعزاز سے نوازا گیا تھا۔
ای ٹی وی بھارت نے اس وقت روشن جہاں کی محنت مشقت اور اس اعزاز کو حاصل کرنے کو خبر شائع کی تھی۔
روشن نے کہا کہ آٹھ سال پہلے ایک ٹرین حادثے میں دونوں پیر گنواں دیے، ممبئی کے ایک سبزی فروش کی بیٹی ہونے کے سبب غربت و افلاس میں پرورش پائی۔
انجمن اسلام سے اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کی۔ مفلسی کے تمام رنگ دیکھے باوجود اس کے ان سب میں سے کچھ انہیں اپنے خوابوں تک پہنچنے سے نہیں روک سکا۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہر وہ آواز جو آپ کو کچھ اچھا کرنے سے روکے اسے آپ اپنی محنت اور حوصلوں سے جیت میں تبدیل کے سکتے۔
انہوں نے بتایا کہ سال 2008 میں جوگیشوری کے پاس بھیڑ سے بھری لوکل ٹرین سے میں (روشن جہاں) گر پڑی۔ اس وقت کوئی کہتا کہ پیر کٹنے سے اچھا میں مر ہی جاتی، سب مذاق اڑاتے تھے کہ ایک تو لڑکی اس پر دونوں پیر کٹے ہوئے۔ امی ابو چپ چاپ سنتے اور روتے تھے۔
روشن جہاں کہتی ہے کہ آہستہ آہستہ انہی باتوں نے ہم تینوں کو مضبوط بنا دیا اور 'میں معذوری کوٹہ سے پورے مہاراشٹر میں کامن انٹرنس ٹیسٹ (سی اے ٹی) میں تیسری نمبر پر رہی۔ حالانکہ، کالج کا انتخاب کرنے کے لئے میری باری آنے پر پینل نے مجھے لینے سے انکار کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرین حادثے میں دونوں پیر کھونے والی روشن جہاں کو اعزاز سے کیوں نوازا گیا؟
ان کا کہنا تھا کہ میں 88 فیصد سے زیادہ معذور ہوں اور ڈاکٹری کے پیشے کے لئے یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس میں لیکچر، مریض دیکھنا، او پی ڈی اور ایمرجنسی جیسے کتنے ہی بھاگ دوڑ والے کام ہوتے ہیں۔ میں یہ سب نہیں کر سکوں گی۔ اس وقت تو میں گھر لوٹ آئی، لیکن پھر امی نے مجھے حوصلہ دیا۔ 'میں نے محسوس کیا کہ دونوں پیروں کو کھونے کے بعد میں میڈیکل میں اتنے مارکس لا سکتی ہوں تو یہ بھی کر سکوں گی۔'
'میں نے ہائی کورٹ میں کیس دائر کر دیا، بالآخر کورٹ کا فیصلہ میرے حق میں آیا اور میری پڑھائی شروع ہو گئی۔میڈیکل کالج کا ہر دن مجھے اور بھی زیادہ مضبوط بناتا گیا۔ وہاں لیکچرس کے درمیان تھک جاتی تو یاد آتا کہ مجھے مریضوں کے لئے اس سے بھی زیادہ دوڑنا ہے۔ جب ہار ماننے کو ہوتی تو ہائی کورٹ کی اپنی جیت اور گھر والوں کا چہرہ یاد آ جاتا۔ پڑھائی میں پریشانی ہوتی تو یاد آتا کہ کیسے ٹرین میرے جسم سے کچھ ہی انچ دوری پر دوڑ رہی تھی اور میں پھر بھی زندہ رہی۔ یہ یاد آتے ہی ڈر، تھکان سب کچھ چھوڑ کر میں پھر سے دوڑ پڑتی۔'
روشن کہتی ہیں کہ پہلے میرا خواب تھا کہ ڈاکٹر بنوں لیکن اپنے پیروں کو دیکھ کر مایوس ہو جاتی تھی، لیکن میں نے ہار نہیں مانی، اپنی خواب پورا کرتے ہوئے ایم ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔