بامبے ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں تین جسم فروش خواتین کو ایک اصلاحی ادارے سے فوری طور پر رہائی کا حکم دیتے ہوئے مشاہدہ کیا ہے کہ غیر اخلاقی ٹریفک (روک تھام) ایکٹ 1956 کے تحت جسم فروشی کوئی جرم نہیں ہے اور یہ کہ ایک بالغ عورت کو اپنی پسند کا پیشہ منتخب کرنے کا حق حاصل ہے اور اس کی رضامندی کے بغیر اسے حراست میں نہیں لیا جاسکتا۔
میٹروپولیٹن مجسٹریٹ، مجگاوں کے ذریعہ مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 17 (2) کے تحت 19 اکتوبر 2019 کو دیے گئے ایک حکم کو چیلنج کرنے والی تین جسم فروش خواتین کی درخواست کے ساتھ ساتھ، ایڈیشنل سیشن جج ڈنڈوشی کی جانب سے 22 اکتوبر 2019 کے ایک حکم، جس میں انھوں نے 19 اکتوبر 2019 کے مذکورہ حکم کو برقرار رکھا تھا، کی سماعت جسٹس پرتھوی راج کے چوہان کی سنگل بنچ کر رہی تھی۔
تفصیلات اور مقدمہ کے پس منظر کے مطابق، پولیس کانسٹیبل روپیش رامچندر مور کو ایک خفیہ اطلاع ملی تھی کہ ملاڈ علاقے میں واقع ایک گیسٹ ہاؤس میں نظام الدین خان نامی ایک دلال خواتین کو جسم فروشی کے لیے فراہم کرتا ہے۔
اس کے بعد پولیس کارروائی میں اس پیشے میں ملوث ایک خاتون کو "ایک یاتری گیسٹ ہاؤس" کے کمرے نمبر 7 سے تحویل میں لیا گیا تھا۔ ملزم کے ساتھ ساتھ دیگر دو متاثرہ خواتین کو بھی گرفتار کرکے تحویل میں لیا گیا تھا۔ تینوں خواتین کو 13 ستمبر 2019 کو میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔
جہاں مجسٹریٹ نے تینوں متاثرین کے سابقہ کردار اور ان کے اہلخانہ کے سلسلے میں پروبیشن آفیسر سے رپورٹ طلب کی۔ جس کے بعد متاثرین کو نوجیون مہیلا وستی گرہ، دیونار ، ممبئی کی تحویل میں دیا گیا۔
مجسٹریٹ نے یہ بھی مناسب سمجھا کہ "نوجیون مہیلا وستی گرہ" میں قیام کے دوران ایک این جی او کے ذریعے ان تینوں خواتین کو ابتدائی تعلیم دینا مناسب ہے۔
مزید یہ کہ مجسٹریٹ نے متاثرین کو ان کی والدہ کی تحویل میں دینے انکار کردیا کیونکہ متاثرہ خواتین 20 سے 22 سال کی عمر کے درمیان جنسی کاموں میں ملوث پائی گئی تھیں۔
نیز پروبیشن آفیسر اور متعلقہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ مجسٹریٹ کی انکوائری سے انکشاف ہوا تھا کہ تینوں خواتین کا تعلق "بیدیا" برادری سے ہے۔
اس معاشرے میں ایک ایسی رسم رواج پائی ہے جہاں ایک لڑکیوں کو بلوغت کے بعد جسم فروشی کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ متاثرین کے والدین کو معلوم تھا کہ ان کی بیٹی جسم فروشی کے کاروبار میں ملوث ہے۔