اردو

urdu

ETV Bharat / state

Bibi ka Maqbara بی بی کا مقبرہ خستہ خالی کا شکار

دکن کے نام سے مشہور بی بی کا مقبرہ کے تحفظ کے لیے محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ انتظامیہ کی عدم توجہی کے سبب تاریخی ورثہ پرخطرے کا بادل منڈلانے لگا ہے۔

By

Published : Aug 9, 2023, 5:14 PM IST

بی بی کا مقبرہ خستہ خالی کا شکار
بی بی کا مقبرہ خستہ خالی کا شکار

بی بی کا مقبرہ خستہ خالی کا شکار

اورنگ آباد: بی بی کا مقبرہ کی تعمیر مغل بادشاہ اورنگزیب کے شہزادے اعظم شاہ نے سترہویں صدی کے اواخر میں کروایا تھا۔ یہ شہزادے نے اپنی ماں دِل راز بانو بیگم زوجہ اورنگ زیب عالم گیر کی یاد میں بنوایا گیا تھا۔ ایسی عالمی شہرت یافتہ اور تاج دکن کے نام سے مشہور بی بی کا مقبرہ جیسا تاریخی ورثہ اب خطرے میں پڑ گیا ہے۔ کیونکہ مقبرے کے مینار اور دیواروں پر دراڑ پڑنے لگی ہے۔

مقبرہ کے میناروں پر جھاڑیاں بھی اُگتی نظر آرہی ہیں۔ اسی لیے منی تاج محل کے نام سے مشہور مقبرہ کے کمزور ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسے میں مقبرہ پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ایسی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ مقبرہ کو دیکھنے کے لئے ہندوستان اور بیرون ملک سے سیاح منی تاج اور دنیا کی مشہور بی بی کا مقبرہ دیکھنے آتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ملک کے تاریخی مقامات میں سے ایک اس مقبرے کو دیکھنے کے لیے ہمیشہ ہجوم رہتا ہے۔ اس مقبرے کے تحفظ کی ذمہ داری محکمہ آثار قدیمہ کو دی گئی ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ دنوں سے مقبرے کے کچھ حصوں کے گرنے کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ مقبرے کی دیواروں اور میناروں میں چھوٹی چھوٹی شگاف پڑ رہے ہیں۔ ہر طرف جھاڑیاں اگ رہی ہیں ۔اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہبی بی کا مقبرہ جیسا تاریخی ورثہ اب خطرے میں ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے اورنگ آباد محکمہ اثار قدیمہ کے سپریٹینڈنٹ شیو کمار بھگت نے کہا ہے کہ مانسون کے دوران ایسے درختوں کا اگنا ایک فطری عمل ہے، لیکن ہم بارش کم ہوتے ہی ان چھوٹے چھوٹے درختوں کو نکل دیتے ہیں۔ عمارت میں اگر کہیں پر دراڑیں ہوتی ہے تو انہیں درست کرنے کا کام بھی ہمیشہ جاری رہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:Malegaon Urdu Ghar مالیگاؤں اردو گھر میں پہلا سیمینار

دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں اورنگ آباد کی شان و شوکت کی تاریخی یادگار بی بی کا مقبرہ کی عمارت کا ایک چھوٹا سا حصہ منہدم ہو گیا تھا۔ اس وقت مقبرے کے تحفظ کا سوال بھی اٹھایا گیا تھا۔ تاہم اب ایک بار پھر کئی مقامات پر درار نظر آنے سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details