مہاراشٹر اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن نے بھیونڈی ایس ٹی ڈپو کی تعمیر کا کام 47 برس قبل کرایا تھا اور 20 مارچ 1972 کو اس وقت کے ریاستی اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے رکن شری کرشن راؤ کے ہاتھوں اس کا افتتاح ہوا تھا لیکن اس کے بعد اس بس اسٹینڈ کی عمارت پر کسی نے توجہ نہیں دی اور وہ خستہ حالی کا شکار ہوگئی۔
بھیونڈی شہر کی کل آبادی 2011 کی مردم شماری کے مطابق تقریباً 7 لاکھ 10 ہزار تھی مگر موجودہ وقت میں شہر کی آبادی تقریباً 12 لاکھ اور اطراف کی دیہی علاقوں کو ملا دیا جائے تو مجموعی طور 16 لاکھ ہے۔
پورے شہر میں واحد بس ڈپو کے ہونے کے سبب مسافر، ڈرائیور اور کنڈکٹر ہی نہیں بلکہ اس عمارت میں کام کرنے والے ملازمین بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرنے پر مجبور ہے۔
مخدوش بس ڈپو سے مسافرین میں خوف ڈپو کے ملازمین نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ عمارت انتہائی خستہ حال ہونے کے سبب اب ان کی ہمت یہاں کام کرنے کی نہیں ہورہی ہے کیونکہ عمارت کے مخدوش پلر اور چھت کی زنگ آلود آہنی سلاخیں دیکھ کر ان میں خوف طاری ہوجاتا ہے مگر نوکری کی مجبوریوں کے تحت وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کررہے ہیں۔
عمارت کا اکثر و بیشتر پلاسٹر کا حصہ ٹوٹ کر ڈرائیور اور مسافروں پر گرتا رہتا ہے اس طرح کے حادثات پیش آنے کے بعد انکے ڈر میں مزید اضافہ ہورہا ہے، چند دنوں بعد شروع ہونے والی برسات میں پوری عمارت بارش کے پانی سے ٹپکتی رہتی ہے اور پوری عمارت کو زبردست نقصان پہنچ رہا ہے مگر ٹرانسپورٹ محکمہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔
بھیونڈی نظام پور سٹی میونسپل کارپوریشن کی حدود میں آنے والے بس ڈپو کو میونسپل انتظامیہ نے انتہائی مخدوش عمارتوں کی فہرست میں ڈالتے ہوئے نوٹس بھی دے دیا ہے۔ مگر اس کے باوجود ڈپو محکمہ کے اعلیٰ افسران نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ میونسپل کمشنر منوہر ہیرے نے بتایا کہ بس ڈپو انتظامیہ کو نوٹس دیتے ہوئے اسکی حالت کا اسٹرکچرل آڈٹ طلب کیا ہے۔
مقامی شہریوں کے مطابق متعدد مرتبہ شکایت کے بعد بھی بس ڈپو انتظامیہ اس پورے معاملے لاپرواہی برت رہا ہے. اگر بروقت ریاستی حکومت و انتظامیہ نے دھیان نہیں دیا تو بارش کے دنوں میں اس عمارت کے سبب کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔