لاک ڈاؤن کے سبب دودھ انڈسٹری ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے ، ڈیری پروڈکٹس کی تیاری بلکل بند ہے ، لاک ڈاؤن نے زندگی پر جمود طاری کردیا ہے ، تمام تقریبات شادی بیاہ ، پارٹیاں اور پروگرام منسوخ ہوچکے ہیں جس کا راست اثر دودھ کے کاروبار پر پڑا ہے لاک ڈاؤن سے پہلے اورنگ آباد شہر میں دودھ کا کاروبار اچھا تھا۔
ہر دن پچیاسی ہزار لیٹر دودھ کا ذخیرہ ہوتا تھا۔ہر روز پچاس ہزار لیٹر دودھ فروخت ہوتا تھا۔دو لاکھ لیٹر کے بائی پروڈکٹس کی فروخت تھی۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے کارخانے، مٹھائی کی دکانیں ، جوس سینٹر، ہوٹلیں، اور تعلیمی ادارے پوری طرح بند ہیں جس کے نتیجے میں دودھ انڈسٹری پر کراری مار پڑرہی ہے لاک داؤن کے بعد دودھ انڈسٹری میں گراوٹ آئی ہے۔
کورونا وائرس کی وبا سے دودھ کے کاروبار میں بھاری گراوٹ اب دودھ کی فروخت میں پچاس فیصد گراوٹ آئی ہے، محض دس ہزار کے بائی پروڈکٹس کی فروخت ہے۔دودھ کے دام میں کٹوتی کے باوجودسیل نہیں۔
مہاراشٹر ودھان سبھا کے سابق اسپیکر اور رکن اسمبلی ہری بھاؤ باگڑے کا کہناہیکہ ریاستی حکومت نے دس لاکھ لیٹر دودھ کا پاؤڈر بنانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ فیصلہ ابھی کاغذ تک ہی محدود ہے ۔
لاک ڈاؤن کے سبب کسانوں کا اپنے گاؤں سے نکلنا مشکل ہوچکا ہے لاک ڈاؤن کا اثر یہ ہوا کہ کسان کو اب اپنے جانور ہی بوجھ لگنے لگے ہیں۔جانوروں سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے کسانوں کو جانور کے لیے ہزاروں روپے کا چارہ خریدنا پڑ رہا ہے لیکن کسانوں کو دودھ کے پیسے بھی نہیں نکل رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ گاؤں میں ہی لوگوں کو دودھ مفت میں ہی تقسیم کر رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی مار نے کسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
ضروری اشیا کی چیزوں میں سب سے سستا اگر کچھ مل رہا ہے تو وہ ہے دودھ لیکن لوگ اسی صورت میں اسے خرید سکتے ہیں جب ان کی جیب میں پیسہ ہو بیس دن کے لاک ڈاؤن نے ایک بڑے طبقے کو بھکمری کی کگار پر پہنچا دیا ہے حکومت دعوے تو بہت کررہی ہے لیکن زمینی حقیقت رونگٹے کھڑے کرنے والی ہے۔