ممبئی:خوابوں کی نگری ممبئی کے ناگدیوی اسٹریٹ علاقہ میں ایک چھوٹی دوکان ہے۔ یہ دوکان جتنی چھوٹی ہے اس کے پیچھے کی سازشیں اتنی ہی بڑی ہیں۔ اسی لیے اس دوکان پر مبینہ جبراً قبضہ کرنے کے لیے ڈی کمپنی کے کارکنان کو سپاری دی گئی۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے بلکہ جس پر ظلم ڈھایا گیا جسے دھمکایا گیا، اسی نے یہ بات کہی ہے۔ یہ بات اس دوکان کے مالک عبدالمتین نے کہی ہے۔ متین اپنی اس دکان کے لیے گزشتہ 20 برسوں سے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ لیکن معاملہ ڈی کمپنی سے مبینہ منسلک ہے۔ اس لیے کارروائی کرنے کے لیے ممبئی پولیس لاچار بنی بیٹھی ہے۔ Abdul Mateen Still awaiting Justice in Mumbai Nagdevi Street
ممبئی کی ناگدیوی اسٹریٹ میں عبدالمتین اب تک انصاف کے منتظر یہ کہانی بڑی ہی دلچسپ ہے۔ ممبئی کے پائیدھونی پولیس تھانے میں درج شکایت گزشتہ 20 برسوں سے جانچ کے نام پر خانہ پوری کرنے والی پولیس ڈی کمپنی کے سامنے کیسے لاچار ہے۔ یہ جاننے کے لیے عبدالمتین کی یہ آپ بیتی کسی فلمی کہانی سے کم نہیں۔ اپنی شکایت میں متین کہتے ہیں کہ اس جگہ پر ان کے والد سن 1951 سے قابض تھے۔ والد کے انتقال کے بعد یہ جگہ عبدالمتین کے ہاتھوں میں آئی۔ سن 2001 میں عبدالمتین کو ڈی کمپنی کے کارکنان نے اغوا کیا۔ اور جبراً دوکان خالی کرائی۔ 2001 سے اپنی دوکان واپس لینے کے لیے عبدالمتین ممبئی کے پائیدھونی پولیس تھانے کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن انصاف کا دور دور تک کوئی اتا پتا نہیں۔ پولیس تھانے میں سب کچھ ہے لیکن انصاف کی عدم موجودگی کے سبب عبدالمتین کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔
ہم نے اس دوکان پر فی الحال جو موجود ہیں ان سے بات کی۔ کراؤن ہارڈ ویر نام کی اس دوکان کے مالکان نے کہا کہ ہم نے یہ جگہ دعوت ہدیہ نام کے ٹرسٹ سے خریدی ہے۔ ہم نے اس ٹرسٹ کے ذمہ داران سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے یہ جگہ شبیر گھڑیالی نام کے شخص سے لی ہے۔ ٹرسٹ نے ایک حلفنامے ہاتھ سے لکھا ہوا دکھایا۔ ٹرسٹ نے یہ بات قبول کی ہے کہ یہ جگہ عبدالمتین نے شبیر گھڑیالی کو ہینڈ اُوور کی ہے۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ اس حلف نامے میں جو دستخط ہے وہ ہندی میں ہے۔ یہ ٹرسٹ کہہ رہا ہے کہ یہ عبدالمتین کی ہے۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ عبدالمتین کی دستخط دوسرے دستاویز کو دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ عبدالمتین ہندی میں نہیں بلکہ انگلش میں دستخط کرتے ہیں۔ ٹرسٹ سے ہم نے کیمرے کے سامنے بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ہم نے شبیر گھڑیالی سے اس بارے میں بات کی لیکن انہوں نے کیمرے کے سامنے آنے سے انکار کر دیا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا کسی کی ملکیت پر قابض ہونے کے لیے اس طرح کے ہینڈ اُوور حلف نامے کافی ہیں۔
ٹرسٹ محض ایک حلف نام کی بنیاد پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ جگہ دوکان کے مالک عبدالمتین نے راضی خوشی سے ہینڈ اُوور کر دی تھی۔ یہ بات کسی کے گلے سے نیچے نہیں اتر رہی، کیونکہ عبدالمتین کے مطابق انہیں نہ صرف اغوا کیا گیا بلکہ ان سے یہ دوکان راتوں رات چھین لی گئی اور اس کام میں شبیر گھڑیالی اور ڈی کمپنی کا ایک کارکن جو 1993 بم بلاسٹ میں ملزم رہا وہ بھی شامل تھا۔ اسی نے اس دوکان کو چھینے کی سپاری لی تھی۔
ممبئی میں حالیہ کئی کنسٹرکشن پیشے میں ڈی کمپنی کی شمولیت کو لیکر ریاستی اور مرکزی ایجنسیوں نے ڈی کمپنی کے کارکنان پر شکنجہ کسا. کئی سلاخوں کے پیچھے ہیں تو کئی چوری چھپے ڈی کمپنی کے اس پیشے کو بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ جس کا شکار کبھی خاص تو کبھی عام آدمی ہو رہا ہے۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ ممبئی پولیس ڈی کمپنی کے اس گورکھ دھندھے کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ مرکزی ایجنسیوں کو دخل دینا پڑا۔
مسلمانوں کا ایک طبقہ جرم کی دنیا کے اس سرغنہ کو مسلمانوں کے خیر خواہ کی شکل میں دیکھتا ھے جب کہ دوسرا وہ طبقہ ہے جس سے عبدالمتین جیسے لوگوں کا تعلق ہے۔ جس کا سب کچھ چھن چکا ہے وہ اُسے اور اُس کے گینگ کے کارکنان کو مافیا ڈان سمجھتے ہیں لیکن خوف کے سائے میں جینے والے اس طبقے کی اکثریت ہونے کے باوجود کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں۔ اب ایسے میں مسلمانوں کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ ایک بہتر معاشرے ایک بہت سوسائٹی کی تشکیل کے لیے اس سوسائٹی میں انڈر ورلڈ کا سایہ قائم رہنا چاہیے یا ایک بہتر سوسائٹی میں امن و انصاف کے لیے سوسائٹی کے بازاروں میں محبت بھرے سکے رائج ہونا چاہیے۔