ممبئی:ممبئی سے متصل ممبرا علاقے میں ایم ایم ویلی علاقے کا شمار پوَش علاقوں میں ہوتا ہے۔ ممبرا کی بڑھتی آبادی میں ایک الگ طبقہ ان علاقوں میں مقیم ہے۔ یہاں مقیم زیادہ تر افراد ملازمت سے فارغ وابستہ ہیں۔ جو سرکاری ہسپتال کے سامنے ہی فٹ پاتھ پر 31 برس کے عامر خان کی چائے کی چھوٹی سے دوکان ہے۔ دوکان تو چائے کی ہے لیکن یہاں چائے فروخت کرنے کا انداز دوسری دوکانوں سے منفرد ہے۔
دوکان میں چائے کے بینر کے علاوہ عامر خان کی اس دوکان کے سامنے ایسا بورڈ لگا ہے، جسے دیکھ کر ہر آنے جانے والی کی نظریں نہ صرف دوکان کے اس بورڈ پر ٹکی رہتی ہیں بلکہ اُسکے اندر ایک جستجو پیدا ہوتی ہے یہ جاننے کی کہ آخر یہ کسکی دوکان ہے۔
میری آنکھیں میرا کان ہیں، میرا ہاتھ میرا منہ ہے۔ اس عبارت کے ساتھ کان سے سننے اور منہ سے بولنے سے قاصر عامر خان نام کے اس نوجوان نے اپنے معذوری کو مات دیکر ایسا کام کیا ہے، جس سے لوگوں کے اندر ایک جذبہ پیدا ہو۔ اس نوجوان نے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلا کر چھوٹی سے چائے کی دوکان کھولی اور اسے ہی اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بنایا۔
عامر کہتے ہیں کہ میں اس دوکان سے اپنے اہل خانہ کا تو گزارا نہیں کر پاتا لیکن میں اس سے خوش ہوں کہ مجھے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا۔ یہ میری حمیت کبھی گوارا نہیں کر سکتی کی مجھے قدرت نے اگر بولنے اور سننے سے قاصر رکھا ہے، تو میں اپنی معذوری کو ذریعہ بنا کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں۔ یہ میں ہرگز نہیں کرسکتا بلکہ قدرت نے مجھے اور بھی کئی صلاحیتوں سے نوازا ہے، میں اسکا استعمال کر کے ایک بہتر زندگی گزارنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
غور طلب ہو کہ دوکان پر بینر میں عامر نے انگلش الفابیٹس کو انڈین سائن لینگویج ریسرچ اینڈ ٹریننگ سینٹر سے منظور شدہ طریقے سے اپنے بینر پر آویزاں کیا ہے تاکہ کوئی بھی کسٹمر عامر سے اگر بات چیت کرنا چاہے، تو وہ اس بینر کے ذریعے عامر سے بات چیت کرسکتا ہے۔
ایک بینر پر عامر نے لکھا ہے ویلکم ٹو اور ڈیف فرینڈلی چائے اسٹال اور اسی بینر میں لکھا ہے مائی آئی اِز مائی اِئر، مائی ہینڈ اِز مائی ماؤتھ۔ اسلئے جو بھی اس دوکان پر آتا ہے اُسے دیکھ کر عامر کے بارے میں بنا سوال کیے ہی سب کچھ سمجھ میں آجاتا ہے۔ اسلئے اکثر چائے کی چسکی کے ساتھ ساتھ لوگ عامر سے بات چیت کر کے عامر سے انکی زندگی سے جڑی بہت سی باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
عامر نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے، یہ تعلیم اُنہوں نے ممبئی کے بائیکلہ علاقے میں اسپیشل اسکول میں حاصل کی۔ دسویں کے بعد سے اُنہیں اس وقت ایسا مخصوص کالج نہیں مل سکا جس سے وہ اپنی تعلیم جاری رکھتے اسلئے اُنہوں نے محنت کر کے اپنی آمدنی کا ذریعہ تلاش کیا۔
آغاز میں عامر نے ایمازان کمپنی میں ملازمت کی، کبھی فٹ پاتھ پر کپڑے فروخت کیے لیکن اب عامر کہتے ہیں چائے کی یہ دوکان اُنہیں بہتر لگتی ہے اور وہ اب اسی کو مزید بہتر بنا کر اسے اپنی آمدنی کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔ عامر کہتے ہیں کہ وہ مخصوص کیٹگری میں ہیں، اُسکے لیے اُنکے پاس حکومت کی جانب سے دیا گیا سرٹیفکیٹ بھی ہے۔ جس جگہ پر انکی دوکان ہے اگر یہی اُنہیں حکومت کی جانب سے منظور شدہ کوئی دوکان مل جائے جو کہ حکومتی اسکیم کی طرف سے ہو تو اُنکے لیے بہت ہی بہتر ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:
پرویز مکرانی ممبرا علاقے کے رہنے والے ہیں مکرانی کہتے ہیں کہ ممبرا چونکہ مسلم اکثریتی بستی ہے اور اس طرح کے نوجوانوں کی تعداد بھی کافی ہے۔ اگر حکومت صرف ممبرا میں انہیں روزگاری فراہم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھاتی ہے، تو ممبرا میں ممکن ہے کیونکہ ایم ایم ویلی اور ممبرا کے دوسرے علاقوں میں ہر ایک کے لئے روزی روٹی کا انتظام ہے لیکن انکے لیے کوئی نہیں سوچتا۔