اس موقع پر پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی )کے ڈائریکٹر منیش دیسائی نے کہا کہ کورونا وائرس کے سبب ملک اور دنیا کے حالات بدل چکے ہیں اور صحافیوں کے لیے بھی راہیں مشکل ہوئی ہیں لیکن ایک بات میں اور کہنا چاہوں گا کہ آج پرنٹ میڈیا کے تعلق سے جو بات یہاں کہی گئی کہ کیا مستقبل میں جرنلزم زندہ رہے گا؟
patrakar-vikas-foundation انہوں نے کہا کہ میں سینیئرز کی موجودگی میں کہہ رہا ہوں کہ جرنلزم ہر وقت زندہ رہے گا اور پریس انفارمیشن بیورو کی جانب سے صحافت کو زندہ رکھنے کے لیے جو بھی مسئلہ ہوگا اسے دور کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں:۔کرناٹک یونین آف ورکنگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن پر اردو صحافیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام
انہوں نے مزید کہا کہ آج سب کچھ ورچوول ہوگیا ہے اب ہم سب کچھ اپنے کمپیوٹر پر دیکھ لیتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ہر صحافی اپنا آئینہ صاف رکھے۔ پہلے صحافی اپنا کام مشن کے طور پر کرتے تھے لیکن اب کچھ لوگ صحافت کمیشن کے طور پر کرتے ہیں، اسے روکنے کی ضرورت ہے اور صحافی آئینہ صرف سرکار کو ہی نہیں دکھائے بلکہ عوام کو بھی دکھائے کہ ان سے کہاں غلطی ہورہی ہے۔
پی آئی بی کے ڈائریکٹر منیش دیسائی نے پی آئی بی کی جانب سے جو سہولیات حکومت کی جانب سے صحافیوں کو دی جارہی ہیں اس کی معلومات دیتے ہوئے بتایا کہ پہلے صرف حکومت سے تصدیق شدہ صحافیوں کو ہی کسی بیماری کے وقت پانچ لاکھ روپیہ تک کی مدد کی جاتی تھی لیکن 2019 سے حکومت سے بغیر تصدیق شدہ صحافی جنہوں نے پانچ سال صحافت کے شعبہ گزارے ہیں انہیں بھی پی آئی بی کی جانب سے حکومت کی اسکیم سے مدد پہنچائی جارہی ہے۔
مزید پڑھیں:۔دیہی علاقوں میں صحافت کسی چیلنج سے کم نہیں
نوبھارت ٹائمز کے سینئر صحافی انوراگ ترپاٹھی نے کہا کہ اب وہ دور آ گیا ہے جب صحافیوں کے لیے جینا مشکل ہوگیا ہے اور جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس کے لیے ہم سب ذمہ دار ہیں کیونکہ ایک وقت تھا جب صحافی کوئی خبر لکھتا تھا تو بے باک اور نڈر ہوکر لکھتا تھا جس کا سماج پر اثر پڑتا تھا لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ماحول بدل گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج عام آدمی کے بارے میں لکھنا ہی بند ہوگیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرینوں میں عام لوگوں کو سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے جب کوئی سفر کرتا ہے تو اپنی جیب میں 260 روپیہ رکھ کر چلتا ہے، اس مسئلہ کی طرف کسی اخبار والے نے توجہ نہیں دی۔
این ڈی ٹی وی کے سینیئر صحافی ابھیشیک شرما نے کہا کہ آج این ڈی ٹی وی عوام کی آواز بن کر ابھرا ہے لیکن اس کا خمیازہ بھی اسے بھگتنا پڑرہا ہے، مودی حکومت نے سب سے پہلے این ڈی ٹی وی پر چھاپہ مروایا تھا۔
ابھیشیک شرما نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا رشتہ قومی دھارے سے کیسے ٹوٹا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس کی شروعات عراق جنگ سے شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آج صحافت کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہم کسی نہ کسی کے ساتھ جڑ گئے ہیں۔
سینیئر صحافی اور روزنامہ ہندوستان کے مدیر سرفراز آرزو نے صحافیوں کو درپیش مسائل کو پیش کرتے ہوئے آخر میں کہا کہ آج بھی ٹرینوں میں کم از کم صحافیوں تک کو بھی سفر کی اجازت نہیں مل رہی ہے، اس لئے جس طرح کی رپورٹنگ ہونی چاہیئے وہ نہیں ہوپارہی ہے۔ پہلے صحافیوں کی آواز کو قبول کیا جاتا تھا لیکن اب حالات بدل گئے ہیں کیونکہ صحافیوں کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوچکا ہے، اس لئے ہمیں یہ سب کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
اردو گگن کے مشیر انصاری نے پروگرام کی نظامت کی جب کہ پترکار وکاس فاؤنڈیشن کے صدر یوسف رانا نے پروگرام کے اغرض و مقاصد کو پیش کیا۔