اردو

urdu

ETV Bharat / state

چھبیس گیارہ کے 15 سال بعد ممبئی کتنی محفوظ ہے؟

ممبئی دہشت گردانہ حملے کے بعد ممبئی شہر کتنا محفوظ ہے؟ کیا ایک عام شہری خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے؟ ممبئی کی سیکورٹی بڑھانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ ان ہی سوالوں کا جواب اس رپورٹ میں دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ پوری خبر پڑھیں۔ Security system in Mumbai

15 years after mumbai attack multi layered protective kawach secures mumbai
چھبیس گیارہ کے 15 سال بعد ممبئی کتنی محفوظ ہے؟

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 26, 2023, 9:51 PM IST

ممبئی: 26 نومبر 2008 کو 10 حملہ آوروں کے 60 گھنٹوں تک ممبئی کے تاج ہوٹل سمیت اہم متعدد مقامات پر تباہی مچانے کے 15 سال بعد ممبئی اب کئی وجوہات کی بنا پر خود کو محفوظ محسوس کر رہا ہے۔ ممبئی کے شہریوں کے پاس اس قتل عام کی صرف مبہم یادیں ہیں جو 10 بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کے بحیرہ عرب کے ذریعہ ممبئی میں داخل ہوکر جنوبی ممبئی کے ایک چھوٹے سے علاقے کا محاصرہ کرنے کے بعد اپنا گھناونا کھیل انجام دیا تھا۔

اس حملے میں تقریباً 150 افراد ہلاک اور 300 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ بھارتی سیکورٹی فورسز نے نو دہشت گردوں کو ہلاک اور ایک حملہ آور اجمل عامر قصاب کو زندہ پکڑا گیا تھا۔ جسے چار سال تک چلنے والے مقدمے میں موت کی سزا سنائی گئی اور پھر 21 نومبر 2012 کو پونے کی یرودا سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ آنجہانی آر آر پاٹل نے اعلان کیا تھا کہ دیگر نو حملہ آوروں، جن کو مختلف مقامات پر سیکورٹی فورسز نے تصادم کے دوران ہلاک کردیا تھا، کو ممبئی میں نامعلوم مقامات پر دفن کیا گیا ہے۔

ان دہشت گردانہ حملوں نے جہاں بھارتی سیکورٹی کوتاہی کو اجاگر کیا وہیں مستقبل میں ایسے ہی خوفناک حالات کو روکنے کے لیے بہترین اقدامات، اپ گریڈ، بہتر ہتھیار، بہتر انٹیلی جنس اور نگرانی کے طریقہ کار کو جنم دیا۔ حکام نے مطابق ممبئی کے ارد گرد ایک ایسی 'سیکیورٹی شیلڈ' تیار کی گئی ہے جو مستقبل میں ایسے کسی بھی حملے کو بہت جلد ناکام بنا سکتی ہے۔

کوئیک ریسپانس ٹیم، ایلیٹ فورس ون، ممبئی پولیس میرین یونٹ، پولیس کے ساتھ مل کر بھارتی بحریہ اور بھارتی کوسٹ گارڈ نے مشترکہ طور پر سمندری اور ساحلی سیکورٹی کو بڑھایا ہے۔ پولیس فورس کے لیے بہتر ہتھیاروں، متعلقہ محکموں کے ساتھ انٹیلی جنس کا اشتراک، جدید آلات کے ساتھ کڑی نگرانی اور شہر میں سی سی ٹی وی کیمروں کے نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ تکنیکی طور پر تربیت یافتہ افرادی قوت سے ان کی مدد کی جاتی ہے۔ پانچ بڑے یونٹس کے ساتھ کوئیک ریسپانس ٹیم (QRT) نے ملک کے تجارتی دارالحکومت کو کافی زیادہ محفوظ بنایا ہے۔

جیسا کہ نام سے پتہ چلتا ہے کیو آر ٹی تیزی سے حرکت کرتا ہے، کم سے کم وقت میں دہشت گردی کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور خطرات کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یرغمالی کے حالات سے نمٹنے یا بے اثر کرنے اور ریاستی یا مرکزی افواج کے ساتھ تال میل میں کام کرنے میں موثر کردار ادا کرتا ہے۔

ایلیٹ فورس ون، جس کو نیشنل سیکیورٹی گارڈ (این ایس جی) کے خطوط پر ڈیزائن کیا گیا ہے، کسی بھی دہشت گردی یا سیکیورٹی خطرات کا جواب دینے کے لیے جدید ترین ہتھیاروں، مواصلاتی نظاموں اور نقل و حمل سے لیس تربیت یافتہ، انتہائی حوصلہ افزا اہلکاروں کی ایک اور اسپیشل رجمنٹ ہے۔ اس نے پہلے ہی یہ رجمنٹ کافی شہرت حاصل کی ہے اور اب وہ دیگر بھارتی ریاستوں اور کچھ افریقی ممالک میں بھی اسی طرح کی سیکورٹی فورسز کو تربیت دے رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

ایک سابق پولیس افسر اور 26/11 دہشت گردی کے مقدمے کے ایک گواہ نے کہا کہ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں شہر کے سیکورٹی ماحول میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ اہلکار نے کہا کہ پچھلے 15 سالوں میں ممبئی میں صرف ایک ہی سنگین دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے، جب 2011 کو دادر ویسٹ کے اوپرا ہاؤس، زاویری بازار اور چارنی روڈ ایسٹ میں 3 کنٹرول بم دھماکے ہوئے، جس میں 26 افراد جان کی بازی ہار گئے اور 130 زخمی ہوئے تھے۔

شہر کے باہر ایک اور دہشت گردانہ حملہ 13 فروری 2010 کو پونے جرمن بیکری میں ہوا تھا، لیکن ان دو کے علاوہ ریاست اس طرح کے حملوں سے تقریباً آزاد ہو چکی ہے۔ نگرانی کے محاذ پر ریاستی حکومت نے اس وقت ممبئی پر چوبیس گھنٹے نگرانی رکھنے کے لیے 6,000 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

حالیہ برسوں میں ممبئی اور باہر کے مختلف حصوں سے خالی دھمکیاں، کرینک کالز اور دیگر انتباہات آئے ہیں، لیکن کچھ معاملات میں سی سی ٹی وی نیٹ ورکس دوسرے مقامی مجرموں کے علاوہ سیکورٹی کو دھمکانے کی کوشش کرنے والے مجرموں کا سراغ لگانے میں بھی کام آئے ہیں۔

حکومت نے بکتر بند بلٹ پروف گاڑیاں، دھماکہ خیز مواد کا اسکینر، سی لیگز ایمفیبیئس بوٹس، بحیرہ عرب میں اسپیڈ بوٹس جیسے آلات ممبئی پولیس کو بھارتی کوسٹ گارڈ اور بھارتی بحریہ جہازوں اور ساحلی گشت کے ساتھ فراہم کی ہیں تاکہ شہر کے ساحل سے دور مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details