بھوپال: ریاست مدھیہ پردیش میں تشریف لائے بنارس ہندو یونیورسٹی وومین کالج کے پروفیسر ڈاکٹر افضل حسین مصباحی سے اردو زبان اور اس کی بقا کے تعلق سے جب ہم نے بات کی تو انہوں نے اردو کے تعلق سے بتایا کہ اردو زبان ہر جگہ پر اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا جب 2019 میں مجھے یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ نے امریکہ کی سرزمین پر بلایا تھا تو ہمارے لیے ایسے گائیڈ مقرر کیے گئے تھے جو انگریزی زبان سے اردو میں ترجمہ کر رہے تھے۔ اس لیے یہ بہت اچھی بات ہے کہ اگر امریکہ کی سرزمین پر کوئی انگریزی کے ساتھ اگر اردو جانتا ہے تو وہ اپنا کیریئر وہاں بھی استعمال سکتا ہے اور اردو زبان کو پیشے کے طور پر اختیار کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں فی الحال بنارس ہندو یونیورسٹی میں ملازمت کر رہا ہوں اور اس سے قبل مدھیہ پردیش کی ساگر یونیورسٹی اور کئی اردو اخبارات نے بھی کام کر چکا ہوں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کارپوریٹ نے بھی اردو اخبارات کو آگے بڑھایا ہے۔ ایک وقت تھا جب اردو اخبارات ایک مخصوص علاقے تک ہی محدود ہوا کرتے تھے۔ لیکن کچھ کمپنیوں نے اردو اخبارات کو منظر عام پر لانے کا سلسلہ شروع کیا جس کے بعد ان اردو اخبارات کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں اردو زبان پڑھا رہا ہوں اور ہمارے وومنز کالج میں 95 فیصد ہماری طالبات ہمارے برادران وطن کی ہیں۔ اس سے یہ صاف ہے کہ اردو کا دائرہ جو کچھ وقت سے سمٹا ہوا تھا اور لوگ کہتے تھے کہ اردو زبان کچھ مخصوص لوگوں کی زبان ہے۔ جبکہ اس زبان کا کسی ایک مذہب سے تعلق نہیں ہے۔ آج اردو زبان کا دائرہ لگاتار وسیع ہوتا چلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے ہندوستانی حکومت نے زبانوں کے طور پر سافٹ اسکیل کے طور پر زبانوں کو اگے بڑھانے کی کوشش کی ہے، یا صوبائی زبانوں کو آگے بڑھانے کی جو کوشش کی جا رہی ہے اس کی وجہ سے اردو زبان کا فروغ بہت تیزی سے ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ضرورت یہ ہے کہ جو لوگ اردو زبان سے جڑے ہوئے ہیں وہ اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے پوری جستجو اور ذمہ داری کے ساتھ اسے آگے بڑھائیں نہ کہ صرف ملازمت کرے بلکہ ایک جذبے کے ساتھ اردو زبان کو فروخت دے۔ اور اسی کے ذریعے ہم ملک کو تعلیمی میدان میں آگے بھی بڑھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں اردو زبان جس طرح سے ترقی یافتہ تھی، حالانکہ درمیان میں کچھ سستی ضرور آئی تھی لیکن آج اس سوشل میڈیا کے زمانے میں اور خود ای ٹی وی اردو نے بھی اور دیگر اردو اداروں نے اردو زبان کے دائروں کو اور وسیع کیا ہے۔