ریاست مدھیہ پردیش میں مدارس کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ مدارس کی کم ہوتی شرح کے باعث طلبہ کی بھی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
مدھیہ پردیش میں مدارس کی کم ہوتی شرح پریشان کن گزشتہ برس کے مقابلے اس سال 10 فیصد مدرسہ بورڈ کے طلبہ میں کمی درج کی گئی ہے۔ اگر ہم گزشتہ پانچ برسوں کی بات کریں تو مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے ساتھ مدارس کی بھی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق ریاست میں ہر برس 5 فیصد مدارس بند ہو رہے ہیں، وہیں مدرسہ بورڈ میں ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کا اندراج گزشتہ دو برسوں میں 10 فیصد کم ہوا ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ اس برس مدرسہ بورڈ کے ہائی اسکول کے ریاستی امتحان میں صرف 500 بچوں نے امتحان دیا ہے۔ گراف بتاتا ہے کہ مدارس کے طلبہ دیگر بورڈز کا رخ کر رہے ہیں۔ وہیں تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ مدارس میں ہورہی بدعنوانی اس کا بڑا سبب ہے۔
سنہ 2010 میں دارالحکومت بھوپال میں 600 مدارس تھے آج یہ کم ہوکر 127 ہی رہ گئے ہیں۔ اس برس بھی چار مدارس کے بند ہونے کی اطلاعات ہیں۔ دو برس قبل مدرسہ بورڈ کے تحت امتحان دینے والے طلبہ کی تعداد تقریباً 5 ہزار ہوتی تھی، آج یہ تعداد گھٹ کر ایک ہزار سے بھی کم ہوگئی ہے۔
مدرسہ بورڈ سے متعلق افسران کا کہنا ہے کہ کورونا کے سبب طلبہ کا امتحان میں اندارج کم ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کورونا تو 2020 میں آیا جبکہ تعداد کی کمی کا سلسلہ گزشتہ پانچ برسوں سے جاری ہے۔
مدارس عربیہ میں پڑھانے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ طلبہ اور مدارس کی کم ہوتی تعداد کا سبب وسائل کی کمی بھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ آج جتنے بھی مدارس بھوپال یا ریاست کے دیگر اضلاع میں ہیں انہیں حکومت سے کوئی امدادی رقم نہیں ملتی، پہلے ایک مدرسہ کو ایک لاکھ 80 ہزار روپے کی سرکاری امداد ملتی تھی۔ بعد میں امدادی رقم کے قوانین میں کئی طرح کے رد و بدل کر دیے گئے اور طے پایا کہ صرف انہیں مدرسوں کو مالی معاونت حاصل ہوگی جن کے یہاں 40 سے زائد طلبہ زیرتعلیم ہیں۔
مدرسین بتاتے ہیں کہ اکثر مدارس کو انفراسٹرکچر کے لیے حکومت سے کبھی کوئی رقم نہیں ملی، جتنے مدارس آج چل رہے ہیں ان میں زیادہ تر کے پاس خود کی عمارت نہیں ہے، ایک ہی کمرے میں ساری کلاسز چلتی ہیں، جس سے طلبہ کی تعداد بڑھ نہیں پاتی اور امدادی رقم کی حصولیابی ناممکن نظر آتی ہے۔
ماہر تعلیم بتاتے ہیں کہ مدارس کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے، حکومت سے انہیں کوئی مالی مدد نہیں ملتی، جس کے سبب مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کو مناسب تنخواہ نہیں مل پاتی، ایسے حالات میں جب اساتذہ ہی نہیں ہوں گے تو مدرسہ کیسے چل پائے گا؟
ان کا کہنا ہے کہ اس کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں، مدرسہ بورڈ کے امتحان کا نتیجہ کبھی وقت پر نہیں آتا، مدرسہ بورڈ میں گزشتہ تین برسوں سے کوئی چیئرمین نہیں ہے، لہذا مدارس کی جانب کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ اسی سبب مدارس بند ہورہے ہیں۔
شعبہ تعلیم کے افسران کا کہنا ہے کہ طلبہ کی کم ہوتی تعداد کا سبب یہ بھی ہے کہ اکثر طلبہ دسویں کے بعد مزدوری کے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ 60 فیصد بچے ہائی اسکول کے بعد انٹر میڈیٹ کا امتحان نہیں دیتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ طلبہ دسویں کے بعد بھی آگے تعلیم جاری رکھیں۔ اس لیے ریاستی اوپن بورڈ کی جانب سے مدارس کے طلبہ کے لیے تربیتی روزگار پروگرام شروع کیا جارہا ہے، تاکہ طلبہ اس کے تئیں سنجیدہ ہوں اور پڑھائی کرکے روزگار سے جڑیں۔ یہ اسکیم رواں برس دسمبر میں شروع کی جائے گی۔
اس معاملے میں طلبہ کا کہنا ہے کہ دیگر بورڈ کی مانند مدارس میں پیشہ ورانہ نصاب (پروفیشنل کورس) نہیں کرائے جاتے، نہ ہی ہمارے لیے کوئی خاص اسکیم ہوتی ہے۔ طلبہ کا ماننا ہے کہ اگر کوئی اچھی اسکیم اور اچھے کورسز کرائے جائیں تو طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔