نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا نے پیر کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی ریاست مدھیہ پردیش کی حکومت کو اس بات پر لتاڑا کہ وہ ایک کالج پرنسل کی گرفتاری پر صرف اس لئے زور دے رہی ہے کیونکہ کالج کی لائبریری میں ایک ایسی کتاب ملی ہے جس میں مبینہ طور پر ہندوؤں کے خلاف مواد موجود ہے۔مدھیہ پردیش حکومت چاہتی ہے کہ مزکورہ پرنسپل کی پیشگی ضمانت کی درخواست کو چیلنج کرے۔
یہ معاملہ اسوقت سامنے آیا جب عدالت عظمیٰ اندور کے گورنمنٹ نیو لا کالج کے مستعفی پرنسپل کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی۔ ڈاکٹر انعام الرحمان نامی سابق پرنسپل کیس میں گرفتاری سے پیشگی تحفظ مانگ رہے ہیں۔ 16 دسمبر 2022 کو عدالت نے انہیں گرفتاری سے اسوقت عبوری تحفظ دیا تھا، جب مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی طرف سے ایسی درخواست پر عبوری ریلیف نہیں ملا تھا۔
آج جب معاملہ اٹھایا گیا تو درخواست گزار کے وکیل ایڈوکیٹ الجو کے جوزف نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی بنچ کو مطلع کیا کہ انکے مؤکل کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے 22 دسمبر 2022 کو پیشگی ضمانت دی ہے۔
چونکہ سپریم کورٹ میں عرضداشت کا مقصد پورا ہوچکا تھا اسلئے جب بنچ ہائی کورٹ کے حکم کے پیش نظر درخواست کو نمٹانے کی کارروائی کر رہا تھا تو ریاست کے وکیل نے بینچ کی طرف رجوع کرتے ہوئے کہا کہ ریاست پیشگی ضمانت دینے کے حکم کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ریاست کے اس موقف نے بینچ کو حیران و ششدر کر دیا۔
"جسٹس چندر چوڑ نے اس پر تیکھے انداز میں وکیل کو کہا کہ کیا واقعی آپ (ضمانت کو روکنے کیلئے) سنجیدہ ہیں۔ ریاست کو اپنی توجہ کچھ اور سنجیدہ چیزوں کی جانب مبذول کرنی چاہئے۔ وہ ایک کالج پرنسپل ہیں آپ اسے کیوں گرفتار کر رہے ہیں؟ صرف اسلئے کہ انکی لائبریری میں ایک کتاب ملی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کچھ فرقہ وارانہ مواد ہے۔یہ کتاب 2014 میں خریدی گئی تھی۔
ریاست کے وکیل نے کہا کہ طلباء نے شکایت کی ہے کہ درخواست گزار اسی کتاب سے پڑھا رہا ہے، جو ان کے دفاع سے میل نہیں کھاتا۔