بھوپال : بھوپال کو نوابوں کی نگری، جھیلوں اور تالابوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ اس شہر کے امتیازات میں جہاں قدرت کا حسن شامل ہے وہیں اسے مساجدوں اور مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔بھوپال میں سردار دوست محمد خان نے محکمہ دارالقضا کی جو بنیاد جن مستحکم بنیادوں پر رکھی تھی وہ روایت ریاست بھوپال کے انڈین یونین میں انضمام کی تک قائم رہی۔
یہی وجہ ہے کہ جون 1949 میں جب ریاست بھوپال کا انڈین یونین میں انظمام ہوا تو نواب بھوپال نہیں اس محکمہ کے تشخص کو بنائے رکھنے کے لیے اسے مرجر ایگریمنٹ کی ایک ضروری شرائط میں شامل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں بھوپال ہی ایسا مقام ہے جہاں پر مساجد کمیٹی کے زیر اہتمام محکمہ دارالقضا اور دارالافتاء کے ساتھ مساجد کمیٹی کے ائمہ و موذنین کو تنخواہوں کی ادائیگی حکومت کی جانب سے کی جاتی ہے۔
حال میں جب ہم نے مساجد کمیٹی کے سیکرٹری یاسر عرافات سے مساجد کمیٹی کی سالانہ کارگردگی اس کا بجٹ اور مساجد کمیٹی کے ذریعے کیے جانے والے فلاحی کاموں کے تعلق سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ مساجد کمیٹی کا ورکنگ ایریا رائسین، سیہور اور بھوپال ہے۔ان اضلاع ہی جو مساجدیں مرجر ایگریمنٹ میں شامل ہے ان کے ائمہ و موذنین کو جو 389 ہیں ان کے لیے ہمیں گرانٹ دیتی ہے۔ اور ہم 272 مساجدوں میں یہ گرانٹ تقسیم کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مساجد کمیٹی کا سالانہ گرانٹ 3 کروڑ 88 لاکھ ہے جو حکومت ہمیں کواٹرلی دیتی ہے۔ اور باقی دفاتر کے اخراجات اور دیگر معاملات مساجد کمیٹی کی امدنی سے پورے کیے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ریاست کے امام اور موذنین کو ان کا نظرانہ دینے میں کبھی کبھی دو سے چار مہینے کا وقت بھی لگتا ہے۔ جس کی وجہ سے امام اور موذنین پریشان نظر اتے ہیں۔ اس پر یاسر عرفات نے کہا کہ ہمیں حکومت ہر تین مہینے میں گرانٹ کا پیسہ دیتی ہے اور ہم اسی حساب سے ائمہ موذنین کو ان کا نظرانہ ان کے بینک کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔