بھوپال:ملک ایران میں کچھ روز سے شیعہ طبقے کی خواتین اس وقت سڑکوں پر اتر آئیں جب ایران کی پولیس کسٹڈی میں ایک نوجوان احتجاجی خاتون کی موت ہوگئی۔ Mahsa Amini Death.جس کے بعد پورے ایران میں کچھ خواتین اپنے برقعے اور اپنے بالوں کو کاٹ کر احتجاج کر رہی ہیں۔ وہیں ان سب حالات پر بھوپال میں شیعہ طبقے کے مذہبی رہنما اور اسکالرز نے اپنا سخت ردعمل ظاہر کیا۔ Scholars Response to the Hijab Issue in Iran
ایران حجاب معاملے پر اسکالرس کا ردعمل شیعہ کمیونٹی کے اسکالر علی عباس امید نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ جس طرح سے ایران میں ایک نوجوان خاتون کی پولیس کسٹڈی میں موت ہوئی ہے اس کی مذمت تو کوئی بھی کرے گا اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا مذہب اسلام کہتا ہے جب تک کوئی قصوروار نہ ہو اس کو کسی بھی طرح کی سزا نہیں دی جائے۔ Iranian Woman Dies
لیکن وہیں دوسری جانب جس طرح سے حجاب کا معاملہ پیش آیا ہے، اس میں مذہب اسلام کہتا ہے کہ حجاب صرف عورتوں کے لیے ہی نہیں ہے۔ حجاب صرف پہننے سے ہی نہیں بلکہ نگاہوں کا حجاب بھی ضروری ہے۔ اگر آپ راستے سے چلتے ہیں تو نظریں جھکا کر چلیں۔ علی عباس امید نے کہا کہ اس وقت ایران میں جو بھی چل رہا ہے وہ محض بیرونی ممالک کی سازش کا ایک حصہ ہے اور اسلامی ممالک کو بدنام کرنے کا یہ ایک سلسلہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ ایران میں صرف اہل تشیع ہی نہیں رہتے ہیں اور نہ ہی صرف مسلمان رہتے ہیں بلکہ وہاں پر مختلف فرقے اور مذہب کے لوگ بھی رہتے بستے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ وقت پہلے ہی بریٹین میں ہندو ومسلمان فسادات پہلی بار ہوئے۔ یہ سب اسی طرح کی سازش کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں جو احتجاج ہو رہا ہے وہ ہونا چاہیے اور ہوتا رہا ہے کیونکہ یہ تاریخی چیز ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران میں حجاب کو لے کر حکومت نے اپنا موقف صاف کر دیا ہے۔ وہاں حجاب کمپلسری نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسلامی اصول کے مطابق حجاب کو پہننا ہے۔ علی عباس امید نے کہا کہ وہاں خواتین حجاب کو لے کر جس طرح سے احتجاج کر رہی ہیں وہ اسلامک نقطۂ نظر سے غلط ہے۔ لیکن وہیں جس طرح سے نوجوان خاتون کی پولیس کسٹڈی میں موت ہوئی ہے ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ان سبھی حالات پر شیعہ فرقہ کے مذہبی رہنما مولانا ڈاکٹر رضی الحسن حیدری نے کہا کہ ایران ایک اسلامی ملک ہے اور وہاں پر جو 1989 ریگولیشن آیا تھا اس کا نام انقلاب اسلامی رکھا گیا ہے اور اس کے تحت یہ شرط رکھی گئی تھی کہ یہاں پر کس طرح کا جمہوری نظام چاہتے ہیں۔ آپ جمہوریت دنیاوی چاہتے ہیں یا پھر اسلامی جمہوریت؟ اگر آپ اسلامی جمہوریت چاہتے ہیں تو آپ کو اسلامی قانون کی پوری طرح سے پابندی کرنا پڑے گی۔ جس پر سارے ایران کے لوگوں نے لبیک کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد اسی طرح سے ایران اسلامی قانون کے مطابق چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ سیاستدان ایسے ہیں جو ایران کی ترقی اور کامیابی نہیں دیکھ پا رہے ہیں، جس میں کچھ بیرونی ممالک اپنی سازش شامل کر رہے ہیں اور ان کے اندرونی معاملات ان کی خانہ جنگی کو اٹھا کر انہیں دنیا کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے۔ تاکہ دنیا سمجھے کہ یہ کٹرپنتھی یعنی شدت پسند ہیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ مذہب اسلام میں قرآن شریف میں صاف طور سے عورتوں کو پردے میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح مردوں کو بھی اسلامی نقطۂ نظر سے پردے کا حکم دیا گیا ہے۔
خواتین کے حقوق پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ مذہب اسلام میں عورتوں کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ عورت قرآن میں اللہ کی نظر میں عزت کی صنف مانی گئی ہے۔ اس لیے انہیں پردے میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا لیکن ایران میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے مذہب اسلام کے خلاف ہے۔ پر وہی جس طرح سے ایک خاتون کی جان چلی گئی اس کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ تہران میں اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد کوما میں چلی جانے والی نوجوان ایرانی خاتون مہسا امینی جمعہ کو انتقال کر گئ تھی۔ سرکاری میڈیا کے مطابق لڑکی کے اہل خانہ اور سماجی کارکنوں نے امینی کی مشتبہ موت کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے ذریعہ گرفتاری اور پھر ان کی ہلاکت کے خلاف سوشل میڈیا پر لوگوں نے سخت نکتہ چینی کی اور مظاہرے کے لیے سڑکوں پر بھی نکل آئے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے جمعے کے روز 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کی تفتیش کا حکم دے دیا ہے۔ ایران کی اخلاقی پولیس خواتین کے لیے سخت ڈریس کوڈ نافذ کرتی ہے، جیسے کہ لازمی ہیڈ اسکارف پہننا وغیرہ اور خواتین کے لیے عوامی مقامات پر اسکارف پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
ایران کی اخلاقی پولیس خواتین کے لیے سخت ڈریس کوڈ نافذ کرتی ہے، جیسے کہ لازمی ہیڈ اسکارف پہننا وغیرہ اور خواتین کے لیے عوامی مقامات پر اسکارف پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ الجزیرہ نےسرکاری میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ 22 سالہ مہسا امینی اپنے اہل خانہ کے ساتھ تہران کے دورے پر تھی جب اسے اخلاقی پولیس یونٹ نے حجاب نہ پہننے کی وجہ سے حراست میں لے لیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے دل کا دورہ پڑا اور ایمرجنسی سروسز کے تعاون سے اسے فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکیں اور پھر ان کی لاش کو طبی معائنہ کار کے دفتر میں منتقل کر دیا گیا۔