مدھیہ پردیش کے ضلع اندور کے یومیہ مزدوری کرنے والے جیتیندر اور ان کی اہلیہ رانو انجنئے ایک مشکل وقت میں تھے۔ ایک طرف جہاں کورونا کا خطرہ تھا تو وہیں یہ غریب اہل خانہ اپنی نوزائیدہ کو بچانے لیے در در کی بھٹک رہا تھا۔
دراصل یومیہ مزدوری کرنے والی رانو کو اسی برس معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہیں۔ ابھی ان کو حاملہ ہوئے دو ماہ گزرے تھے کہ معلوم ہوا کہ وہ لیور کی بیماری سے متاثر ہیں۔
احمد آباد سیول ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ٹیم ایسے میں حمل میں پل رہے بچے کی فکر ستانے لگی۔ اہل خانہ نے ساری امیدیں کھو دی تھیں۔ اس درمیان ان کو کسی نے احمد آباد کے سیول ہسپتال جانے کی صلاح دی۔
جس کے بعد وہ احمد آباد کے سیول ہسپتال علاج کے لیے پہنچے، جہاں علاج کرانے سے ان حالت میں سدھار ہونے لگا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، لیکن چھ ماہ کے بعد رانو کی حالت نازک ہو گئی۔ ایک بار پھر اہل خانہ نے سیول ہسپتال کے ڈاکٹروں سے صلاح لی۔ اس بار پریشانی رانو کو لیکر نہیں تھی، بلکہ اس کے حمل میں پل رہے بچے کو لیکر تھی۔
احمدآباد کے سیول ہسپتال کے ڈاکٹروں کے سامنے ماں اور بچے دونوں کو بچانے کی پریشانی تھی۔ محکمہ امراض خواتین کی ڈاکٹر بیلا شاہ کے مطابق بچے کے زندہ رہنے کی امید بہت کم تھی۔ سخت مشکلات کے بعد اکتوبر میں رانو نے 436 گرام کی بچی کو جنم دیا۔ اہل خانہ نے نوزائیدہ کا نام دکشتا رکھا ہے۔
ماں اور نوزائیدہ کو ملی نئی زندگی نوزائیدہ کے والد کا کہنا ہے کہ اگر علاج احمدآباد کے سیول ہسپتال کے علاوہ کسی دیگر پرائیویٹ ہسپتال میں کرانے کی نوبت آتی تو 10 سے 12 لاکھ خرچ کرنے پڑتے۔ ان دونوں کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے۔ دونوں نے بتایا کہ احمد آباد سیول ہسپتال میں بالکل مفت علاج ملا ہے۔
اس سلسلے میں احمد آباد سیول ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ داکٹر جے پی مودی نے کہا کہ جیتیندر اور رانو کو ملا علاج ہسپتال کی بہتر کار کردگی کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا دور میں بھی محکمہ خواتین امراض بہتر طریقے سے کام کر رہا ہے، رانو کے نوزائیدہ کی پیدائش اس کی ایک اچھی مثال ہے۔
احمد آباد سیول ہسپتال میں 436 گرام کی بچی مزید پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ ہسپتال کے لیے یہ بہت فخر کی بات ہے کہ تقریباً 436 گرام کے نوزائیدہ کو نئی زندگی ملی۔