بھوپال (مدھیہ پردیش):ریاست مدھیہ پردیش میں سنہ 2019 میں اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے۔ جس میں کانگریس پارٹی 17 سال بعد اقتدار میں آئی اور پھر 14 مہینے کی حکومت چلانے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے کانگریس کی حکومت گرا دی جس کے بعد بھارتی جنتا پارٹی اقتدار میں ہیں۔ تاہم ان 4 برسوں میں نہ تو کانگریس اور نہ ہی بھارتی جنتا پارٹی نے اقلیتی اداروں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ ریاست میں کئی مسلم ادارے ہیں جن میں مدھیہ پردیش ریاستی اقلیتی کمیشن، مدھیہ پردیش وقف بورڈ، اسٹیٹ حج کمیٹی، مدرسہ بورڈ، اقلیتی اور پسماندہ مالیاتی ترقیاتی کارپوریشن، اردو اکیڈمی، مساجد کمیٹی، ضلع وقف کمیٹی، ضلع متولی کمیٹی شامل ہے۔ مدھیہ پردیش ریاستی اقلیتی کمیشن میں چیئرمین کا عہدہ مسلم کمیونٹی کے لیے مخصوص ہے۔ جب کہ یہاں ایک مسلمان ممبر بھی ہوتا ہے۔
وقف بورڈ میں نامزد کیٹیگری میں کم از کم 2 اور زیادہ سے زیادہ 4 ممبر بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح حج کمیٹی میں کم از کم 7 اور زیادہ سے زیادہ 11ارکان کی تقرری کی جا سکتی ہے۔ صدر کے علاوہ مدرسہ بورڈ میں 3 ڈائریکٹر بنانے کا بھی نظام ہے۔ یہاں اقلیتی مالیاتی ترقیاتی کارپوریشن کی ایگزیکٹیو میٹنگ میں مسلم ارکان کو شامل کرنے کا اصول ہے۔ اردو اکیڈمی میں صدر اور نائب صدر کے علاوہ ایگزیکٹیو کمیٹی میں کم ازکم 5 ممبران کی تقرری کی روایت ہے۔ اس کے علاوہ مساجد کمیٹی میں صدر اور سیکریٹری کے علاوہ 3 ممبر بنائے جاتے ہیں۔ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو ضلع وقف کمیٹی اور ضلع متولی کمیٹی میں بھی جگہ دی جا سکتی ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی نہ تو کانگریس اور نہ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی نے کسی بھی مسلم لیڈر کی تقرری اقلیتی اداروں میں نہیں کی ہے۔