ریاستِ مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں گزشتہ تین سالوں سے جاری جشن نورالحسنین کی اختتامی تقریب ایم جی ایم کے رکمنی ہال میں رکھی گئی، جہاں مہمانوں کے ہاتھوں صاحب جشن نورالحسنین کو مجتبیٰ حسین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ نورالحسنین صاحب کو این سی پی کے قومی صدر شراد پاور کے ہاتھوں یہ ایوارڈ دیا جانا تھا، مگر عین وقت پر ان کا دورہ ملتوی ہوگیا ،لہٰذا راجیہ سبھا رکن فوزیہ تحسین خان کے ہاتھوں نورالحسنین کو اس پر وقار اعزاز سے نوازا گیا۔
اسی طرح فوزیہ تحسین خان اور دیگر اہم شخصیات کے ہاتھوں من شاہ جہانم اور قلم گویاد ان دو کتابوں کی رونمائی اس موقع پر عمل میں آئی۔ وارثانِ حرف و قلم کے زمہ داروں نے نورالحسنین کی ادبی خدمات کے پیش نظر ان کے حیات ہی میں جشن نورالحسنین منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وارثانِ حرف و قلم کے روح روا ں خالد سیف الدین تنظیم کے صدر وسیل احمد اور دیگر ذمہ داران نے سال 2019 میں جشن نورالحسنین کا آغاز کیا تھا، جس کے تحت 51 مختلف پروگرام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا
شیخ ظہورالدین نے اپنے ذاتی اخراجات سے من شاہ جہانم اور قلم گویاد نامی کتابوں کی طباعت کروائی، من شاہ جہانم کو طنز و مزاح کے معروف قلم کار مجتبیٰ حسین کے نام سے اور قلم گویاد کو مرحوم خواجہ معین الدین کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اس جشن کی اختتامی تقریب بڑے ہی منظم طریقے سے عمل میں آئی۔ اس موقع پر نورالحسنین پر بنائی گئی ایک ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی، اسی طرح مہمانوں کے ہاتھوں معروف ناول نگار نورالحسنین کو مجتبیٰ حسین ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
اسی طرح شہر کی عظیم شخصیتوں اور سینکڑوں محبان اردو کی موجودگی میں مہمانوں کے ہاتھوں دونوں ہی کتابوں من شاہ جہانم اور قلم گویاد کی رونمائی کی گئی اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں خالد سیف الدین اور ان کی پوری ٹیم نے اہم رول ادا کیا۔ صدارتی خطاب میں فوزیہ خان نے کہا کہ آج کی محفل اورنگ آباد کے اعلیٰ اذہان، اہل فکر و دانش کا عظیم مجمع ہے ، ڈھائی سال کے دوران منعقدہ 150 جشن کا اختتام ہوا ہے۔ اس محفل میں شرد پوار کی آمد طے تھی، تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے تھے تاہم اچانک انہیں دہلی جانا پڑا ، البتہ انہوں نے مجھ سے جشن نورالحسنین کے لئے نیک خواہشات پیغام پہنچانے کے لئے کہا ہے ۔
فوزیہ خان نے کہا سائنس و ٹکنالوجی میں ترقی کو ایڈونس معاشرہ کہا جاتا ہے لیکن سائنس اور ٹکنالوجی معاشرے میں زبان وادب کا بھی بڑا داخل ہے، ہر زبان امیر ہوتی ہے، خدا نے عربی زبان کو قرآن کے لئے منتخب کیا ہے، اردو زبان کو اقلیتی زبان قرار دے دیا گیا ہے، انکوش راؤ کرم کے جملے کا حوالہ دیتے ہوئے فوزیہ خان نے کہا آج کے حالات میں اقلیتی لفظ سے گھبراہٹ ہوتی ہے، حالانکہ جمہوریت میں اقلیتیں کتنی یہ جمہوریت کا امتحان ہے۔ لفظ جہاد کوکئی نام دیکر اسے بدنام کیا گیا، جہاد کے اصل معنی بتاتے ہوئے فوزیہ خان نے کہا کہ اب ہمیں تعلیم جہاد کرنا ہوگا۔ جشن نورالحسنین اختتامی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر پی اے انعامدار، انکوش راؤ کدم، ڈاکٹر ارتکاز افضل، رکن کونسل ستیش چوہان،فوزیہ تحسین خان، پرنسپل مخدوم فاروقی، پرنسپل مظہر فاروقی ، معید صدیقی و دیگر موجود تھے۔
مزید پڑھیں:Book Launched in Aurangabad: صادق دکن دیس میں کتاب کی رسم اجرائی تقریب