اردو

urdu

By

Published : Jul 8, 2023, 2:19 PM IST

ETV Bharat / state

Seminar on Barkatullah Bhopali برکت اللہ بھوپالی پر بھوپال میں قومی سیمینار

بھوپال کے مجاہد ازادی برکت اللہ بھوپالی کی یوم پیدائش کے موقع پر قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں مقررین نے جہاں برکت اللہ بھوپالی کے نام سے جگہوں کے نام رکھنے کی بات کہی تو وہیں ان کی حیات و خدمات پر ایک کتاب مرتب کرنے کا مطالبہ کیا۔

برکت اللہ بھوپالی پر بھوپال میں قومی سیمینار
برکت اللہ بھوپالی پر بھوپال میں قومی سیمینار

برکت اللہ بھوپالی پر بھوپال میں قومی سیمینار

بھوپال:بھارت کے عظیم مجاہد آزادی پروفیسر ومولانا برکت اللہ بھوپالی کی پیدائش 7 جولائی 1859 کو بھوپال میں ہوئی۔ برکت اللہ بھوپالی کے والد مولوی شجاعت اللہ 1857 کی تحریک آزادی کے بعد ہدایوں اتر پردیش سے آکر ریاست بھوپال کے سیہور میں مقیم ہو گئے تھے۔ آپ کی علمیت کا تذکرہ سننے کے بعد نواب سکندر جہاں بیگم نے آپ کو بھوپال بلایا تھا۔ یہیں بھوپال میں 7 جولائی 1859 کو قدیم بھوپال کے محلہ اتوار کے تبا میاں محل کے نزدیک برکت اللہ بھوپالی پیدا ہوئے۔ برکت اللہ بھوپالی کی ابتدائی تعلیم بھوپال کے سلیمانیہ اورینٹل کالج میں ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی ذہانت سے اردو، عربی اور فارسی کے ساتھ انگریزی، ترکی اور جرمن زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ مولانا برکت اللہ بھوپالی نے غلام بھارت میں آنکھ کھولی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے انگریزی حکومت کے مظالم کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تحصیل علم کے بعد وہ آزادی کی لڑائی میں کود پڑے اور ایک دن چپکے سے بھوپال سے غائب ہو گئے۔ مختلف ممالک میں آزادی ہند کے متوالوں کے ساتھ مل کر انہوں نے 1915 میں افغانستان میں پہلی عبوری جلا وطن سرکار بنائی۔ آپ اس جلا وطن سرکار کے وزیراعظم بنائے گئے اور راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اس عبوری جلا وطن سرکار کے صدر بنائے گئے۔ برکت اللہ بھوپالی نے جرمن، جاپان، روس، برطانیہ، امریکہ کا دورہ کیا اور بھارت کی آزادی کے لیے راہ ہموار کی۔ برکت اللہ بھوپالی نے ہندوستان کے نوجوانوں سے آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ برکت اللہ بھوپالی نے انڈیا ہوم رول سوسائٹی قائم کی اور آزادی کے متوالوں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی۔

یہ بھی پڑھیں:

برکت اللہ بھوپالی نے ملک کی آزادی کے لیے بھارت میں فضا ساز کرنے کے ساتھ غیر ممالک میں بھی سربراہان مملکت سے ملاقات کی۔ وہ 1907 جاپان، 1914 برلن، 1915 کابل، 1919 ماسکو، 1922 برلن، 1922 برسلس اور 1927 میں سان فرانسسکو پہنچے۔ برکت اللہ بھوپالی آزادی کی حمایت میں لینن سے ملنے والے پہلے بھارتی تھے۔ برکت اللہ بھوپالی نے اپنی زندگی کا سفر سان فرانسسکو میں تمام کیا اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ 27 ستمبر 1927 کو سان فرانسکو میں جب وہ اپنی زندگی کی آخری سانس لے رہے تھے۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ میں تمام عمر وطن کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا۔

بھوپال میں منعقد ہوئے قومی سیمینار میں صحافی اور ادیب اقبال مسعود نے کہا کہ برکت اللہ بھوپالی بیشتر زبانوں کے خالق تھے۔ انہوں نے کہا کہ برکت اللہ بھوپالی وہ تھے جنہوں نے پوری دنیا میں گھوم کر یہ بتایا کہ بھارت میں غلامی کی کیا صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ برکت اللہ بھوپالی ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے دنیا کی توجہ کھینچنے کے لیے ایک آزاد مملکت بنائی۔ انہوں نے کئی اخبارات انگریزی، اردو اور دیگر زبانوں میں نکالے۔ اور ان سب اخبارات کا موضوع بھی جنگ آزادی ہی رہتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ برکت اللہ بھوپالی کا ایک ہی مقصد تھا کہ ہندوستان آزاد ہو جائے مگر افسوس ایسے مجاہد آزادی کو ہم فراموش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس شہر میں اور پورے ملک میں تین جگہیں ہی ہیں جو ان کے نام پر ہے۔ نہ تو ان کے نام سے کوئی سڑک ہے نہ ہی دیگر کوئی جگہ، مگر مدھیہ پردیش کی آزادی کی تنظیم کی جانب سے ایک پتلی سی ان پر کتاب ضرور نکالی گئی ہے جو کہ ناکافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومتوں سے امید نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کر کے برکت اللہ بھوپالی پر ایک بہترین کتاب مرتب کرنا چاہیے۔ وہیں ادیب پروفیسر نعمان خان نے کہا کہ برکت اللہ بھوپالی کی اصل پہچان جہاں گشت یعنی پوری دنیا گھومنے سے ہے۔ محض 23 سال کی عمر میں انہوں نے گھر چھوڑ کر انگریزوں کے خلاف مورچہ کھولا اور آزادی کی لڑائی میں لوگوں کو شامل کیا۔ پروفیسر نعمان خان نے کہا کہ برکت اللہ بھوپالی کے ساتھی راجہ مہندر پرتاپ بھی تھے مگر حکومت نے مہندر پرتاپ پر ایک بہت بڑا سیمینار منعقد کیا۔ جس میں وزیراعظم نریندر مودی بھی شامل ہوئے تھے لیکن اس سیمینار میں برکت اللہ بھوپالی کا کہیں نام نہیں لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ کوششیں مولانا برکت اللہ بھوپالی کی تھی مگر انہیں ہر جگہ پر خاموش کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برکت اللہ بھوپالی، بھوپال کے وہ مجاہد آزادی ہے جنہیں پوری دنیا جانتی ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ آزادی کے امرت اتسو میں انہیں یاد کرنا چاہیے اور نئی نسل کو ان کے بارے میں معلومات ہونی چاہیے۔
علی گڑھ سے تشریف لائے ڈاکٹر اسد فیضل فاروقی نے بتایا کہ برکت اللہ بھوپالی کو صحافت کے نظریہ سے دیکھا جائے تو انہوں نے پہلا اخبار جاپان سے اسلامی کریٹینٹی کے نام سے جاری کیا تھا۔ انہوں نے جاپان میں مقیم بھارتیوں کو ایک جگہ جمع کرکے آزادی کی لڑائی کے ساتھ اخبار شروع کیا۔ بھارت نے اس کے بعد اخبار پر پابندی عائد کر کے انہیں جلا وطن کر دیا تھا۔ جاپان سے وہ فرانس چلے گئے اور وہاں پر الاصلاح کے نام سے اخبار نکالا۔ اس پر بھی ہندوستان گورنمنٹ نے پابندی لگوا دی۔ اس کے بعد برکت اللہ بھوپالی نے جرمنی سے الاصلاح اخبار کو نکالا اور اس اخبار میں شائع کیے گئے مضامین بہت اہم ہیں۔ اس میں جس میں انہوں نے ہندوستان کو ایک چھوٹا جہان بتایا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سے پوری دنیا میں قومیں بستی ہیں اسی طرح اور مختلف ذاتیں بستی ہیں اور سبھی مذاہب کے لوگ یکجا ہوں گے تو ایک مضبوط ہندوستان بنے گا۔

دوسری جانب بھوپال کی پروفیسر بلقیس جہاں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر بہت فخر ہوتا ہے کہ برکت اللہ بھوپالی، بھوپال میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ بھوپال میں ان کے نام سے برکت اللہ یونیورسٹی قائم ہے اور ان کے نام سے اسکول بھی چلایا جا رہا ہے۔ جب جب برکت اللہ بھوپالی کا نام آتا ہے تو ہمارا سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ برکت اللہ بھوپالی کی آخری خواہش تھی کہ جب ملک آزاد ہو جائے تو ان کے جسد خاکی کو ہندوستان لایا جائے۔ آزادی کے 66 سال ہو چکے ہیں لیکن آزاد فضا میں آزادی کی بات کرنے والے ہمارے کسی رہنما کو اس کی فکر نہیں ہوئی کہ وہ برکت اللہ بھوپالی اور بہادر شاہ ظفر کو آزاد ہندوستان میں دو گز زمین دے کر ان کو خراج عقیدت پیش کر سکے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details