بھوپال:ریاست مدھیہ پردیش میں جہاں مدارس کے سروے کی بات کی گئی تھی۔ وہیں اب حکومت کے ذریعہ مدرسوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کی جانچ کرانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس پر مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے اپنے بیان میں کہا کہ ریاست کے کچھ مدرسوں میں قابل اعتراض پڑھانے کا معاملہ ان کے علم میں آیا ہے۔ میں نے بھی اسے سرسری طور سے دیکھا ہے۔ اس کی کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے مدرسوں میں پڑھائے جانے والے مواد یا نصاب کو ضلع کے کلکٹر کو ہدایت دے کر متعلقہ ضلع کے محکمۂ تعلیمات سے اس اسٹڈی مٹیریل یا مطالعاتی مواد کی اسکروٹنی کرالیں تاکہ یہ یقینی ہو سکے کہ پڑھائے جانے والا مواد قابل اعتراض نہ ہو۔ انہوں نے واضح کیا کہ کچھ مدرسوں میں بچوں کو قابل اعتراض کنٹینٹ پڑھانے سے متعلق بات نوٹس میں آئی ہے۔ لہٰذا کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے اس بارے میں کلکٹروں کو ہدایت دی جائے گی کہ وہ ضلع کے متعلق تعلیمی حکم سے اس کی اسکروٹنی کروائیں۔ Muslim Clerics And Scholars Reaction On Madhya Pradesh Home Minister Statement Over Investigation Of Madrasah Syllabus
وہیں بھوپال کے ایک مدرسے کے مہتمم اسماعیل بیگ نے کہا کہ میں حکومت کو یہ یاد دلاتا چلوں کی اتر پردیش مدرسہ بورڈ کے چیئرمین افتخار جاوید نے کہا تھا کہ اتر پردیش میں جتنے بھی بڑے مدرسے ہیں ان میں پڑھائی جانے والی ڈگریوں کو اتر پردیش حکومت مانتی ہے اور قبول کرتی ہے۔اس لئے ملک کے جتنے بھی بڑے مدارس ہے جس میں دارالعلوم دیوبند یا ندواہ کا نصاب ہو یہی سب پورے ملک کے مدارس میں نصاب کو پڑھایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے اور وہیں سے ہی مدارس کا نصاب طے ہوا ہے۔ جب اتر پردیش کی حکومت اس نصاب کو مان رہی ہے تو پھر مدھیہ پردیش میں کیوں سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ مدارس میں حب الوطنی اپنے وطن سے محبت سکھائیں جاتی ہے نہ کہ ملک مخالف سرگرمیاں۔ اس معاملے پر مدرسہ کلیان سنگھ کے صدر قاضی محمد جنید نے کہا مدارس کے نصاب بنانے والی حکومت اور حکومت میں بیٹھے افسران ہی ہے۔ جس کی ایک باقاعدہ کمیٹی ہوتی ہے۔یہ مدرسوں میں پڑھائے جانے والا نصاب کیا ہوگا۔وہ حکومت کی بنائی کمیٹی ہی طے کرتی ہے۔اگر مدارس کے نصاب میں کچھ کم و بیش ہوئی ہو تو اس کی جانچ مدرسوں پر نہیں بلکہ اس کمیٹی پر ہونا چاہیے جو یہ نصاب بناتی ہے۔