منیش بادل
آنند سے پڑھ لیجئے ان کے من کو آپ
کھل کے یوں کہتے نہیں وہ اپنے سنتپا
سوچ سمجھ کر بولیے رہے نہ کوئی کھید
ناؤ ڈبونے کے لیے ایک بہت ہے چھید
پروفیسر کے کے پٹیل
میں نے تمام عمر ایک عبادت کی ہے
اپنے ماں باپ کے چرنوں کی تلاوت کی ہے
ان کی خدمت کو اہم فرض مانا ہے
ان کی خوشیوں کو بخشش کی وجہ سمجھی ہے۔
امبر عابد
رچیتا ہے یہ گیتوں کے وہ غزلوں کے شیدائی
ادھر شبدوں کی بینا ہے ادھر لفظوں کی شہنائی
صبیحہ اثر
مدینہ مدتوں تھرے شوالا ہم نے دیکھا ہے
اندھیروں سے بھی گزرے ہیں اجالا ہم نے دیکھا ہے۔
نمرتا شری واستو
دیر سے اٹھنا دیر سے سونا چھوڑ دیا
بکھرے بکھرے خواب پیرونا چھوڑ دیا
سوکھ گئے آنسو تو درپن یہ سمجھا
ہم نے ان کی یاد میں رونا چھوڑ دیا۔
خالدہ صدیقی
ہرگز نہ سوچیے کہ ملے گا سلہ کوئی
نیکی ضرور ضرور کیجئے دریا میں ڈالیے۔
فاروق انجم
بدی کو خاک ہونا چاہیے تھا
کہ باطل پاک ہونا چاہیے تھا
ملی تھی اگر دنیا سے آنکھیں
ہمیں پاک ہونا چاہیے تھا۔