اردو

urdu

ETV Bharat / state

مدھیہ پردیش کی ڈاکٹر ہمانشا کوویڈ 19 ویکسین تیار کرنے والی ٹیم میں شامل

ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع چمبل سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ہیمانشا کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی مشترکہ ٹیم کے ساتھ  مل کر کوویڈ 19 کے ویکسین کی تحقیق کررہی ہیں۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران اس کے تعلق سے کچھ اہم باتیں بتائی۔

By

Published : Apr 1, 2020, 12:14 AM IST

مدھیہ پردیش کی ڈاکٹر ہمانشا کوویڈ 19 ویکسین تیار کرنے والی ٹیم میں شامل
مدھیہ پردیش کی ڈاکٹر ہمانشا کوویڈ 19 ویکسین تیار کرنے والی ٹیم میں شامل

اس عالمی وبائی مرض کے دوران پوری دنیا کورونا وائرس کی ویکسین تلاش کرنے کے لیے دن رات کی جدوجہد میں مشغول ہے۔اس مشقت میں مختلف ادارے، محققین اور ممالک باہمی تعاون سے اس وائرس کے خلاف اجتماعی جنگ لڑ رہی ہے۔اس وائرس نے عالمی سطح پر تقریبا 7 لاکھ 21 ہزار سے زائد افراد کو اپنے زدمیں کر رکھا ہے ۔وہیں ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کے ویکسین کو تیار ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟

مدھیہ پردیش کے چمبل سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ہیمانشا دنیا کی دو بڑی یونیورسٹی کیمبرج اور آکسفرڈ کی مشترکہ ٹیم کی رکن ہیں۔ای ٹی وی بھارت کے ساتھ انٹرویو کے اقتسابات پیش ہیں۔

سوال :جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ڈاکٹر ہمانشا فی الحال آپ اس نئے وائرس کی ویکسین کو تیار کرنے والی ٹیم میں شامل ہیں، تو آپ اس تحقیق میں کہاں تک کامیاب ہوئی ہیں اور آپ کس ٹیم کا حصہ ہیں ؟

ڈاکٹر ہمانشا: میں ابھی کیمبرج یونیورسٹی میں بی بی ایس آر سی میں ریسرچ فیلو ہوں اور میں نے کیمبرج سے ہی اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کی ہے۔ ہاں ہم بھی ویکسین تلاش کرنے کی تحقیق کررہے ہیں جو کورونا وائرس کا علاج کرسکے۔ کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم اس کی کوشش میں لگی ہوئی ہے اور میں بھی اس ٹیم کا حصہ ہوں۔ دنیا بھر سے تقریبا 35 دوا ساز کمپنیاں اور 700 ادارے کسی نہ کسی طرح کے ویکسین تیار کرنے میں ملوث ہیں جو ہمیں اس وائرس سے تحفظ فراہم کرسکے۔

مدھیہ پردیش کی ڈاکٹر ہمانشا کوویڈ 19 ویکسین تیار کرنے والی ٹیم میں شامل

اگر میں آپ کو عام زبان میں سمجھاؤں تو جیسے ہم گھر کی تعمیر کرنے سے پہلے خاکہ تیار کرتے ہیں جو ڈھانچے کی تکمیل میں مدد کرتی ہے، بالکل خلیوں کا بھی یہی طریقہ ہے۔ جیسے ہمارے جسم میں موجود ڈی این اے ہماری ظاہری شکل کا تعین کرتا ہے اسی طرح وائرس میں موجود آر این اے مواد ہمیں اس کی کوٹنگ کے بارے میں بتاتا ہے۔ پوری دنیا میں کی جانے والی تحقیق وائرس کے ارد گرد گھومتی ہے اور سائنس دان یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ کس قسم کا وائرس ہے؟ اس وائرس میں کس قسم کا آر این اے موجود ہے اور اس کا جینیاتی تسلسل کیا ہے؟

دراصل ہماری ٹیم بنیادی طور پر ایسی دوا بنانے کی کوشش کررہی ہے جو ہمیں اس مہلک بیماری سے محفوظ رکھے گی۔اس ٹیم کی سربراہی پروفیسر سارہ گلبرٹ کررہی ہیں جو آکسفرڈ یونیورسٹی میں بطور ریسرچر کام کرتی ہیں اور جنہوں نے وبا کو روکنے کے لیے ویکسین کی تجویز پیش کی تھی۔

سوال آخر یہ کورونا وائرس ہے کیا؟

ڈاکٹر ہمانشا: یہ کروی دار شکل والا وائرس ہے۔لاطینی لفظ میں کورونا کا مطلب کرون یعنی تاج ہوتا ہے۔جس کے بیرونی طرف کانٹے اور اندورنی طرف ایس شکل کا آر این اے موجود ہوتا ہے۔عام طور پر یہ جانوروں میں پایا جاتا ہے لیکن ماضی میں سات قسم کے ایسے وائرس پائے گئے ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئے ہیں۔

اس وائرس میں بالکل کیکٹیس کے کانٹوں جیسی صفت ہوتی ہے۔اگر کانٹا ہمارے جسم پر چپک جائے تو اس سے جان چھڑانا عذاب ہوجاتا ہے، بالکل اسی طرح کورونا وائرس سے نجات پانا مشکل ہے۔یہ وائرس پھیپھڑوں کےخلیوں سے چپک جاتا ہے اور ہمارے پھیپھڑوں اور نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے۔اس کا خطرہ سب سے زیادہ عمر رسیدہ افراد اور جنہیں دمہ یا سانس سے متعلق دیگر مسائل یا پھر جن میں ذیابطیس جیسے بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد کو ہوتا ہے ۔

اس بیماری کے تین مراحل ہوتےہیں۔اول یہ آپ کے پھیپھڑوں میں داخل ہوجاتا ہے اور اے سی ای 2 ریسیپٹرز سے چپک جاتا ہے اور ہماری جسم کی خلیوں کی مدد سے یہ بڑی تعداد میں بڑھنے لگتے ہیں۔دوسرا، ہماری قوت مدافعت ( ہمارے جسم میں باہر سے آئے وائرس یا دوسری حیاتیات سے خود کے دفاع میں ردعمل کرنا) اس وقت حرکت میں آتی ہے جب انہیں معلوم ہوتا ہےکہ ہمارے جسم میں کوئی دوسرا وائرس داخل ہوا ہے۔اسی تناظر میں کورونا وائرس نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے، لہذا مضبوط مدافعتی نظام والے لوگ اس وائرس سے بچ سکتے ہیں۔آخر میں اگر ہمار مدافعتی نظام کمزرو ہوتا ہے تو وائرس اور مدافعتی نظام میں مقابلہ ہوتا ہے۔جس کے نتیجے میں ہمارے پھیپھڑوں سے سائیٹوکائن پیدا ہوتا ہے۔جس کے نیجے میں مدافعتی خلیوں اور فلوڈ کے جمع ہونے سے سانس لینے کے راستہ بلاک ہوجاتا ہے۔

سوال: کیا یہ سارس اور ایچ1 این 1 کی ایک شکل ہے؟

ڈاکٹر ہمانشا :کورونا خاندان میں بڑی تعداد میں وائرس ہیں جو زیادہ تر جانوروں میں پائے جاتے ہیں۔کوویڈ 19 بھی سارس وائرس کی طرح ہے۔دونوں ہی وائرس کی ساختی بلیوپرنٹ 90-80 فیصد ممائل ہیں۔لہذا اسے سارس کوویڈ 19 بھی کہا جاتا ہے، لیکن یہ سارس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

سوال:ابتدائی ٹیسٹ کیا ہے جو انفیکشن کی تصدیق کرتا ہے؟

ڈاکٹر ہمانشا : پہلا ٹیسٹ آرٹی- پی سی آر ہوتا ہے جس میں جسمانی بافتوں کو جسم سے لیا جاتا ہے اور مشین میں اس کی جانچ کی جاتی ہے۔ ٹیسٹ سے یہ طے ہوتا ہے کہ آپ کا جسم کورونا وائرس سے متاثر ہے یا نہیں۔ لیکن مذکورہ بالا ٹیسٹ کے ذریعے وائرس کی تاریخ پیدا نہیں کی جاسکتی ہے۔ سنگاپور میں سیرولوجیکل ٹیسٹ کروا کر وائرس کی تاریخ کو تلاش کرنے کے لئے ایک ٹیکنالوجی تیار کی گئی ہے۔

سوال :وائرس کے اچانک پھیلنے کی وجہ کیا ہے؟

ڈاکٹر ہمانشا:کورونا خاندان کے دو چار وائرس بہت پرانے ہیں۔یہ سنہ 1919 میں پھیلی تھی اور سارس سنہ 2009 میں منظر عام پر آئی تھی اور مشاہدے اور معلومات کے مطابق جب ہم جانور کھاتے ہیں یا اس کے رابطے میں آجاتے ہیں تو یہ آسانی سے پھیل سکتا ہے۔

سوال: پوری دنیا خوفزدہ ہے ، ہر ایک اپنی جان بچانا چاہتا ہے۔ امریکہ ، چین ، اٹلی ، جاپان جیسے ممالک کو بھی اس سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ایسے میں آپ کو امید کی کرن نظر آرہی ہے ؟

ڈاکٹر ہمانشا : پروفیسر گلبرٹ کی ٹیم کوویڈ 19 کے خلاف ایک ویکسین تیار کرکے چوہوں میں اس وائرس کے جینیاتی سسلسلے کی جانچ کرر ہی ہیں۔ انہوں نے اسی تکنیک کا استعمل کرتے ہوئے ایم ای آر ایس کی ویکسین بنائی تھی۔

سوال :پورے دنیا میں اس وبائی امراض سے مقابلہ کرنے والوں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

ڈاکٹر ہمانشا:میرا سب کو ایک ہی پیغام ہے کہ آپ اپنے ہاتھ دھوتے رہیں۔کوویڈ 19 کے پھیلاؤ کو قابو پانے کے لیے حکومت کے ذریعہ جاری کردہ رہنما خطوط پر عمل کریں اور میں سب سے درخواست کرتی ہوں کہ سماجی دوری بنائیں رکھیں اپنے گھروں سے باہر مت جاہیں۔مجھے امید ہے کہ ہر شخص صحت مند اور محفوظ رہے گا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details