بجرنگ دل پر پابندی معاملے پر مدھیہ پردیش میں سیاست تیز بھوپال:کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں پی ایف آئی اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں پر پابندی لگانے کی بات کی ہے۔ کانگریس کے بجرنگ دل پر پابندی لگانے کے وعدہ پر بھارتی جنتا پارٹی بھڑک اٹھی ہے۔ کرناٹک سے شروع ہونے والا یہ تنازعہ مدھیہ پردیش تک پہنچ گیا ہے۔ وزیراعلی شیوراج سنگھ چوہان نے اس معاملے کو لے کر کانگریس پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا کہ کانگریس اپنا دماغ کھو چکی ہے، اس لئے بجرنگ دل پر پابندی لگانے کی بات کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجرنگ دل ایک مضبوط قوم پرست تنظیم ہے۔ بجرنگ دل دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے، وہ لو جہاد کی مخالفت کرتا ہے۔ حب الوطنی کا جذبہ، باشمول سماجی خدمت، کسی کے مذہب اور ثقافت کے تیئں عزت نفس اور بیداری کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اس کا موازنہ پی ایف آئی جیسی دہشت گرد تنظیم سے کیا جا رہا ہے۔ وزیراعلی شیوراج سنگھ چوہان یہیں نہیں رکے انہوں نے کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی کانگریس ہے، جس نے ایودھیا میں رام کے مندر کی تعمیر کی مخالفت کی تھی۔
انہوں نے کانگریس پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ وہی کانگریس ہے، جس نے آرام سیتو کو خیالِ کہا تھا۔ یہ وہی کانگریس ہے جو موقع ملتے ہی ہندوتوا کی مخالفت کرتی ہے۔ آج کانگریس کا چہرہ پوری طرح سے بے نقاب ہو چکا ہے۔ شیو راج سنگھ چوہان نے مزید کہا کہ کون بھول سکتا ہے کہ مدھیہ پردیس میں سمی جیسی تنظیموں کو کھاد اور پانی فراہم کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سرجیکل اسٹرائیک کی مخالفت کرنے والے دہشت گردوں کی تعریف کرنے والے اب بجرنگ دل پر پابندی لگانے کی بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس معاملے پر ریاستی کانگریس صدر اور سابق وزیراعلی کمل ناتھ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ہنومان کے بہت بڑے بھگت بن جاتے ہیں۔ ان کی پارٹی کانگریس بجرنگ دل پر پابندی لگانے کی بات کرتی ہے۔ انہیں اس معاملے پر جواب دینا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: Promise to Ban Bajrang Dal پی ایف آئی اور بجرنگ دل کو پاپندی عائد کرنے کا وعدہ
وہیں دموہ کے جبیرا پہنچے کمل ناتھ نے بھی اس معاملے پر اپنا ردعمل دیا۔ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے، چاہے وہ شخص ہو یا تنظیم۔ یہ بات سپریم کورٹ نے کہی ہے۔ کسی کو نشانہ نہ بنائیں۔ جو بھی معاشرے میں تفریقہ یا نفرت کی بات کرتا ہے، چاہے وہ کسی بھی تنظیم کا ہو یا کہیں کا بھی شخص ہو۔ سپریم کورٹ خود کہتی ہے کہ اس کے خلاف سخت کاروائی کی جانی چاہئے۔ یہ آج ہمارے سماجی اتحاد کا معاملہ ہے۔