23مارچ کی رات جب باقی ملک کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کررہا تھا تب مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے شیو راج سنگھ چوہان وزارت اعلیٰ کے عہدے کا حلف لے رہے تھے۔راج بھون میں گورنر لال جی ٹنڈن نے ایک مختصر تقریب میں نئے وزیر اعلیٰ کو ان کے عہدے کا حلف دلایا۔ اس کے دوسرے دن ریاست کے اسمبلی اجلاس میں نو منتخب وزیر اعلیٰ نے اکثریت ثابت کی، جس کا کانگریس نے بائیکاٹ کیا ۔
پندرہ مہینوں کے وقفے کے بعد چوہان پھر سے مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ وہ چوتھی بار ریاست میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر بیٹھے ہیں۔اس طرح سے بی جے پی نے ایک اور ریاست میں بر سر اقتدار حاصل کرلی ہے ۔
مدھیہ پردیس میں سیاسی بحران 10مارچ کو اُس وقت شروع ہوا تھا ، جب سینئر کانگریس لیڈر جوتر ادتیہ سندھیا نے اپنی پارٹی چھوڑ دی تھی ۔ اُن کے پیچھے کانگریس کے بیس اراکین اسمبلی مستعفی ہوگئے ، جن میں چھ وزرا بھی شامل تھے۔اُن سب کو جوتر ادتیہ سندھیا کا وفادار قرار دیا جارہا ہے۔سپیکر نے چھ وزراء کا استعفیٰ تو منظور کیا لیکن ابتدا میں اس نے دیگر اراکین اسمبلی کے استعفے تسلیم نہیں کیا۔بیشتر باغی اراکین اسمبلی کو بنگلور لے جایا گیا، جہاں کانگریس کے بقول انہیں بی جے پی کے دباؤ میں’یرغمال‘ بنائے رکھا گیا۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش کے گورنر نے اسپیکر کو لکھا کہ وہ 16مارچ کو اسمبلی میں فلور ٹیسٹ کرائیں۔ اسپیکر این پی پرجا پتی نے فلور ٹیسٹ کرانے کے عمل میں تاخیر کی۔ لیکن بی جے پی نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے اس سے گزارش کی کہ وہ اسپیکر کو فوراً فلور ٹیسٹ کرانے کی ہدایت دے۔ سپریم کورٹ میں جسٹس ڈی وائی چندراچُد اور جسٹس ہمنت گپتا پر مشتمل ڈیویژن بینچ نے کیس کی دو روزہ سماعت کے بعد 19مارچ کوسپیکر کو ہدایات دیں کہ وہ اگلے روز اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلا کرفلور ٹیسٹ کرائیں۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے استعفیٰ دیا۔
دراصل 22اراکین اسمبلی کے استعفے کی وجہ سے کمل ناتھ اکثریت ثابت کرنے کی حالت میں نہیں رہے تھے۔مدھیہ پردیش اسمبلی کل 230نشستوں پر مشتمل ہے، ان میں دو فوت شدہ اراکین کی خالی نشستیں بھی شامل ہیں۔کانگریس کو بنیادی طور پر 114سیٹیں حاصل تھیں ۔ اس کے علاوہ اسے بی ایس پی، ایس پی اور آزاد اُمیدواروں پر مشتمل 7اراکین کی حمائت بھی حاصل تھی۔ایوان میں بی جے پی کے 107اراکین تھے۔ لیکن 22اراکین اسمبلی کے استعفے کی وجہ سے ممبران کی مجموعی تعداد گھٹ کر208رہ گئی ۔یعنی حکومت بنانے کے لئے ایک سو پانچ نشستیں درکار تھیں۔ اس طرح سے بی جے پی کو حکومت قائم کرنے کا دعویٰ پیش کرنے کا موقعہ حاصل ہوا۔
مدھیہ پردیش میں سیاسی چال بازی کا یہ مظاہرہ دل بدلی قانون کا توڑ نکالنے کی ایک نئی تکنیک ثابت ہوئی ہے ۔آئین ہند کے دسویں شیڈیول ( جسے عرف عام میں دل بدلی قانون پکارا جاتا ہے)کو وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں سنہ 1985ء میں آئین کی 52ویں ترمیم کے ذریعے متعارف کیا گیا تھا۔ یہ ترمیم ’’ آیا رام ، گیا رام ‘‘ سیاست کا توڑ کرنے کے لئے کی گئی تھی۔ در اصل اُس زمانے میںمنتخب اراکین کا ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں کود پڑنے کا رویہ عام ہوگیا تھا۔ اُنہی دنوں ہریانہ کے ایک رُکن اسمبلی گیا رام نے ایک دن میں تین بار اپنی پارٹی بدل دی تھی۔دسویں شیڈول میں اُن ضوابط کو بھی متعارف کرایا گیا ہے ، جن کی رو سے اسمبلی کو تحلیل کیا جاسکتا ہے۔اگرچہ اس ترمیم کے بعد دل بدلی کی روایت ختم کرنے میں مدد ملی لیکن اب حالیہ ایام میں یہ بات دیکھنے کو ملی ہے کہ مختلف حربوں کے ذریعے دل بدلی قانون کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پہلے اراکین کی ایک اچھی خاصی تعداد سے اُن کا استعفیٰ پیش کرایا جاتا ہے اور اس کے بعد حکومتوں کو گرایا جاتا ہے۔بی جے پی خاص طور سے اس طرح کے حربوں کو استعمال کرنے کی مرتکب ہوتی رہی ہے۔ اس کا مظاہرہ پہلی بار سنہ 2008میں کرناٹک میں کیا گیا، جسے ’’آپریشن کملا ‘‘ پکارا جاتا ہے۔اس کے بعد یہی سلسلہ چل پڑا ہے۔ ا