اردو

urdu

By

Published : Feb 13, 2021, 1:09 PM IST

ETV Bharat / state

جمعیت علماء ہند کا نواب شاہ جہاں بیگم کے مقبرے کو تحفظ فراہم کرنے کی مہم

مدھیہ پردیش جمعیت علماء ہند نے بھوپال کے نوابین کے مقبروں کی تحفظ کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے بھوپال کی تیسری بیگم سلطان شاہ جہاں بیگم کے مقبرے کی تزئین کاری کر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس عظیم شخصیت کے مقبرے کی تزئین کاری کرائے اور ان کے مقبرے کی تاریخی اہمیت سے بھی عوام کو روشناس کرائے -

جمعیت علماء ہند کا نواب شاہ جہاں بیگم کے مقبرے کو تحفظ فراہم کرنے کی مہم
جمعیت علماء ہند کا نواب شاہ جہاں بیگم کے مقبرے کو تحفظ فراہم کرنے کی مہم

ریاست مدھیہ پردیش کا شہر بھوپال کو جھیلوں اور تالابوں کا شہر کہا جاتا ہے، وہیں اسے نوابوں کے شہر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔کیونکہ بھوپال کو تاریخی پہچان دینے میں یہاں کے نوابوں اور بیگموں نے اہم رول ادا کیا ہے۔

بھوپالکا قیام 1707ء میں عمل میں آیا جب نواب دوست محمد خان بہادر نے اِس کی بنیاد رکھی تھی۔لیکن اس نوابی ریاست پر چار بیگمات نے شان کے ساتھ حکمرانی کی اور ان کی ہی دین ہے کہ شہر کا ثقافتی اور تہذیبی ڈھانچہ ملک کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک میں بھی منفرد پہچان رکھتا ہے۔لیکن جب ہم اس شاہی و نوابی خاندان کے مقبروں کی جانب دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے وارثوں اور ذمہ داروں نے انہیں اپنے ذہن سے فراموش کردیا ہے۔

جمعیت علماء ہند کا نواب شاہ جہاں بیگم کے مقبرے کو تحفظ فراہم کرنے کی مہم

بھوپال کی دسویں حکمران اور تیسری بیگم بھوپال سلطان شاہ جہاں بیگم جنہوں نے بھوپال میں کئی عظیم اور تاریخی عمارتوں کی تعمیر کروائی، لیکن اب ان کا مقبرہ گمنامی کا شکار ہے۔ان کے مقبرے پر اب آوارہ جانوروں، شرابیوں اور غیر عناصر کا قبضہ تھا۔ انہیں سبھی حالات کو دیکھتے ہوئے مدھیہ پردیش جمیعت علمائے ہند نے ان قبروں کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا ہے۔


جمعیت علماء ہند کی ٹیم نے پہلے نواب شاہجہاں بیگم کے مقبرے کی صاف صفائی کا کام شروع کیا پھر مقبرے کے رنگ روغن کا کام کر اس کی چار دیواری کو درست کیا تاکہ یہاں پر وہ سب کام نہ ہو جو اب تک ہوتے آ رہے ہیں۔

کا کہنا ہے کہ عرصوں سے بھوپال کے جمعیت علماء ہند کی جانب سے بھوپال کے قبرستان اور قدیم مقبروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مہم چلائی جارہی ہے۔اسی مہم کے تحت سلطان شاہ جہاں بیگم کے مقبرے کی تزئین کاری کی جارہی ہے، یہ کام تقریبا گزشتہ ایک ماہ سے جاری ہے۔

جمعیتہ علماء ہند کے صدر اسماعیل بیگ کا کہنا ہے کہ بیگم بھوپال سلطان شاہ جہاں بیگم کے مقبرے کی صورتحال کافی بدحالی کا شکار تھی۔مقبرے کی چار دیواری بھی منہدم تھی، کھڑکیوں سے لے کر دروازے تک سب کی حالت خستہ تھی۔

آپ کو یہاں واضح کردیں کہ بھوپال میں نواب شاہجہاں بیگم کا مقبرہ ہی نہیں بلکہ اور بھی نوابین کے کئی ایسے مقبرے ہیں جو خستہ حالی کا شکار ہے، جن کے تحفظ کے لیے لئے جمیعت علماء اب لگاتار کام کرے گی اور سرکار سے بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ یہاں ضروری اقدامات اٹھاتے ہوئے انہیں تحفظ فراہم کی جائے ۔

سنہ 1844 میں اپنے والد نواب جہانگیر محمد خان بہادر کے انتقال کے بعد شاہ جہاں بیگم کم عمری میں ہی ریاست بھوپال کی بیگم قرار پائیں مگر انتظامِ سلطنت اُن کی والدہ نواب سکندر بیگم کو تفویض کر دیا گیا۔ نومبر 1868 میں نواب سکندر بیگم کے انتقال کے بعد وہ بیگم بھوپال بن گئیں اور تادمِ آخر بحیثیتِ حکمران ریاست بھوپال اِسی عہدے پر فائز رہیں۔ 16 جون 1901 کو انتقال ہوا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details