بھوپال کے شاعر بدر واسطی کا تعلق نوابوں کے شہر بھوپال سے ہے۔ ان کی یوم پیدائش 31 جنوری 1966 کی ہے۔ بدر واسطی کو بچپن ہی سے اردو اور ادب کے طرف رجحان رہا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1990 سے شاعری شروع کی اور ان کے استاد بھوپال کے مشہور شاعر عشرت قادری تھے۔
ایک شاعر: بدر واسطی (شاعر) سے خاص بات چیت
ایک شاعر پروگرام کے تحت بھوپال کے سینیئر شاعر بدر واسطی نے ای ٹی وی بھارت اردو سے خاص بات چیت کی۔ اس دوران انہوں نے اپنے کلام بھی پیش کیے۔
بدر واسطی ایک اچھے شاعر کے ساتھ ساتھ بہت اچھے ڈرامہ نگار اور بہترین اداکار بھی ہیں۔ بدر واسطی نے قومی سطح پر مشاعرے پڑھے ہیں اور آپ کی ایک کتاب "تو میں کہاں ہوں" منظر عام پر آچکی ہے اور دو کتابیں ترتیب دی جارہی ہیں، جس میں ایک کا نام "محبت آخری حل ہے"۔
یوں ہی گزرے جا رہے ہیں دن مہینے سال کے
آؤ کچھ باتیں کریں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے
میں اکیلا ہی پشیماں تو نہیں ہوں میرے بعد
وہ بھی شرمندہ ہوئے ہیں مجھ کو خالی ٹال کے
میرا ماضی اور مستقبل ہے اور تنہا ہوں میں
یار سب ہوتے ہیں ساتھی بس یہاں تو حال کے
کامنی چلن ون شاعر کا فن تیرا بدن
ہم سے دیوانے بھی دیوانے ہیں تیری چال کے
یاس، حسرت، غم، امیدیں بے قراری اور دل
پیار کے سب قرض ذمہ میں ہیں اسی کنگال کے
زندگی اپنے لیے ہیں گیت میٹھے درد کا
گنگناتے پھر رہے ہیں ہم بِنا سُرتال کے
شام دلکش، رات مہوَش صبح گلوَش بدرجی
یاد جنت میں بھی آئیں گے مزے بھوپال کے
مزید پڑھیں:'نئی نسل کو ساحر لدھیانوی سے واقف کرانا میرا مقصد'