بھوپال: مدھیہ پردیش حکومت کے ایک افسر پر منگل کو چند شدت پسند ہندووں کے ایک گروپ نے حملہ کر دیا اور ان پر سیاہی پھینک کر جے شری رام کے نعرے لگائے جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ سرکاری افسر دموہ کے پرائیویٹ اسکول میں حجاب کے تنازع سے متعلق ایک معاملے میں تحقیقاتی ٹیم کا حصہ تھے۔ ویڈیو کے مطابق افسر گاڑی کے اندر بیٹھا ہوا تھا کہ اس دوران دو افراد نے اس پر سیاہی پھینک دی اور جے شری رام کے نعرے لگائے۔ متاثرہ افسر نے بتایا کہ دموہ کے گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول میں حجاب تنازع کی تحقیقات کے لیے ان پر حملہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ ان لوگوں نے مجھ پر کیوں سیاہی پھینکی ہے؟ میں ان کے خلاف پولیس میں شکایت کروں گا۔ وہ یہ سب گنگا جمنا اسکول میں حجاب تنازع کی وجہ سے کر رہے ہیں۔ وہیں ضلع کلکٹر مینک اگروال نے بتایا کہ ہم نے اس پورے معاملے کی چھان بین کی ہے اور لڑکیوں کے والدین سے بات کی اور اسکول انتظامیہ سے بھی بات ہوئی ہے۔ تبدیلی مذہب کا معاملہ کہیں بھی سامنے نہیں آیا۔ تحقیقاتی ٹیم میں شامل ضلع کوتوالی ٹی آئی وجے سنگھ راجپوت کا کہنا ہے کہ اسکول انتظامیہ نے واضح کیا کہ اسکارف کو حجاب سمجھا جا رہا ہے۔ یہ اسکول یونیفارم کا ایک حصہ ہے۔ اسکول کے تمام بچے اسے پہن سکتے ہیں، لیکن کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا۔
واضح رہے کہ مدھیہ پردیش کے دموہ میں حجاب کے تنازع نے اب فرقہ وارانہ شکل اختیار کر لی ہے کیونکہ حکمراں بی جے پی کے رہنماوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہاں ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرنے کی سازش چل رہی ہے۔ بی جے پی رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ کم از کم تین ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کرایا گیا ہے، جب کہ تین خواتین اسکول ٹیچروں نے تحقیقات کے دوران اس الزام کی تردید کی اور بتایا کہ لڑکیوں نے اپنی مرضی سے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے۔ مدھیہ پردیش بی جے پی کے صدر وی ڈی شرما نے ایک قدم آگے بڑھ کر دعویٰ کیا کہ یہ صرف ایک مبینہ لو جہاد کا واقعہ نہیں ہے، بلکہ باہر سے فنڈز حاصل کرنے والے لوگوں کے ایک گروپ کے ذریعے چلائی جانے والی سازش کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دموہ کے گنگا جمنا اسکول میں ہندو لڑکیوں کو اسلام قبول کرایا گیا ہے۔ اس معاملے میں ٹرر فنڈنگ بھی شامل ہے۔ میں یہ بیان ذمہ دار ہوتے ہوئے دے رہا ہوں اور دہشت گردی کے زاویے سے بھی اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہوں۔
مزید پڑھیں:MP Hijab Poster Controversy ہندو بچیوں کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کیا گیا، جانچ میں خلاصہ
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسکول گزشتہ ہفتے ایک تنازعہ میں پڑ گیا تھا جب اس نے اپنی دیوار پر بورڈ کے امتحان میں ٹاپ کرنے والوں کو مبارکباد دینے والا پوسٹر چسپاں کیا تھا، جس میں چند لڑکیوں کے سر پر حجاب تھا۔ اسی پوسٹر کی تصویروں کا استعمال کرتے ہوئے دائیں بازو کی مختلف تنظیموں بشمول وی ایچ پی اور اے بی وی پی نے الزام لگایا کہ غیر مسلم طالبات کو حجاب پہننے پر مجبور کیا گیا جیسا کہ ان کی تصویر میں دیکھا گیا ہے، جس کے بعد ضلعی ایجوکیشن حکام کی ایک ٹیم نے اسکول کا معائنہ کیا اور گنگا جمنا اسکول کی تسلیم کو معطل کر دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ معیارات کی صحیح تعمیل نہیں کی گئی۔ تاہم حکام نے حجاب کے تنازع کا کوئی ذکر نہیں کیا اور کہا کہ معائنے میں یہ بات سامنے آئی کہ طلباء کے لیے کئی سہولیات ناکافی یا دستیاب نہیں تھیں۔