بھوپال:ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال اور شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے درمیان ایک اہم رشتہ رہا ہے۔ کس طرح کا تھا علامہ اقبالؒ اور بھوپال کا رشتہ اور علامہ اقبالؒ کو اور ان کی شاعری کو ہندوستان کے لوگ کس طرح سے لیتے ہیں اس پر بھوپال کے ماہرینِ ادب اقبالؒ مسعود اور نعمان خان سے جب ای ٹی وی بھارت اردو نے خصوصی گفتگو کی تو ماہرین ادب میں شامل اقبالؒ مسعود نے کہا کہ علامہ اقبالؒ کا بھوپال سے ذہنی تعلق قائم تھا۔ سیاست کا، زبان کا اور باحیثیت شاعر کا، تین طرح کے تعلقات علامہ اقبالؒ کے بھوپال سے تھے۔ Spiritual and Mental Connection of Allama Iqbal with Bhopal
علامہ اقبالؒ کا بھوپال سے روحانی اور ذہنی تعلق سیاست میں اگر دیکھا جائے تو نواب حمید اللہ خان کی فکر کو وہ بہت اہمیت دیتے تھے۔ جب علامہ اقبالؒ پہلی بار بھوپال آئے تو انہوں نے حمید اللہ خان سے یہ گفتگو کی کہ گول میز کانفرنس میں کیا بات کی جائے۔ اور جب علامہ اقبالؒ دوسری بار بھوپال تشریف لائے تو وہ بیمار تھے جس کے بعد ریاست بھوپال کے نواب نے انہیں مالی امداد کی کیونکہ ان کی مالی حالت اس وقت خراب تھی۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اقبالؒ کے بھوپال سے اور نواب حمیداللہ خان سے گہرے تعلقات تھے، اقبال مسعود نے کہا کہ بھوپال اکیلا شہر ہے جس میں علامہ اقبالؒ نے پنجاب، لاہور کے بعد انہوں نے یہاں نظمیں لکھی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے جو بھی نظمیں بھوپال میں لکھیں انہوں نے خصوصی طور پر ان نظموں کے نیچے بھوپال نام ضرور لکھا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ بھوپال کی اہمیت ان کے نظروں میں کتنی تھی۔
اب جہاں تک اقبالؒ کی پہچان کا تعلق ہے اور ان کی حیثیت کیا ہے تو پوری دنیا جانتی ہے کہ علامہ اقبالؒ کی حیثیت اردو کے گنے چنے لوگوں میں سرفہرست ہے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبالؒ نے جتنا کام اردو کے لیے کیا اتنا ہی فارسی زبان کے لیے بھی کیا اور فارسی زبان میں اس لیے کیا کیونکہ دنیا کی بڑی آبادی فارسی زبان بولا کرتی تھی تاکہ اقبالؒ کا پیغام پوری دنیا میں جا سکے۔ وہیں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب انقلاب آیا تو علامہ اقبالؒ کے اشعار کس طرح سے گونجتے رہے۔ ان کا نعرہ نہ مشرق نہ مغرب ان کے فارسی شعر سے لیا گیا ہے۔ جب ملک کی تقسیم ہوئی اور وہ پاکستان چلے گئے تو پاکستان نے انہیں اپنا لیا جب کہ اقبالؒ پاکستان کے حامی نہیں تھے۔ انہوں نے نہ تو پاکستان لفظ استعمال کیا ہے اور نہ ہی وہ کبھی پاکستان لکھتے تھے۔ بلکہ وہ اس کے خلاف تھے کہ کسی زمین کو پاک کہا جائے اور کسی کو ناپاک کیونکہ علامہ اقبالؒ ہندوستان میں رہنا چاہتے تھے۔ ہندوستان کی عظمت ان کے دل میں تھی۔
ان کی کتاب جاوید نامہ جب شائع ہوا تو اس کتاب میں گوتم بدھ کا نام بھی ہے شیو بھی ہے اس میں گرونانک نام بھی شامل ہیں۔ تو ایسا شخص جس کے ذہن میں ہندوستان اس قدر بسا ہوا ہو وہ ہندوستان کے خلاف اور ایک ملک کے دو ملک بنانے کا حامی نہیں ہو سکتا۔ وہیں ممتاز ادیب نعمان خان نے علامہ اقبالؒ کے تعلق سے کہا کہ علامہ اقبالؒ کی ولادت باسعادت جو ہے وہ اس وقت ہوئی جب ہندوستان متحدہ ہندوستان کہلاتا تھا۔ اور جب 21 اپریل 1938میں علامہ اقبالؒ کا انتقال ہوا تب بھی ہندوستان متحدہ ہندوستان تھا، غلامی میں جکڑا ہوا تھا اور غیر منقسم بھی تھا۔ کیونکہ تب نہ تو پاکستان بنا تھا نہ ہی بنگلہ دیش بنا تھا۔ تو لوگوں کا ایسا کہنا ہے کہ علامہ اقبالؒ ہندوستانی نہیں ہیں وہ لوگوں کی کم علمی کا ثبوت ہے۔ علامہ اقبالؒ سو فیصد ہندوستانی تھے۔ اور انہیں ہندوستانی ہونے پر ناز تھا۔ کیونکہ وہ کہتے تھے۔
"خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے"
"مٹی کی مورتوں نے سمجھا ہے تو خدا ہے"
جو شخص یہ لکھتا ہے کہ "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" ایسے شخص پر شک کرنا اور اسے ہندوستانی نہ سمجھنا ایسے کہنے والا خود ہندوستانی نہیں ہوگا۔ نعمان خان نے کہا کہ علامہ اقبالؒ نے جس طرح کی خدمات ہندوستان کو دی ہیں وہ بہت کم لوگ دے سکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبالؒ کئی زبانیں جانتے تھے۔ انہوں نے فارسی میں بہترین شاعری کی ہے۔ نعمان خان نے مزید کہا کہ بھرتری ہری، سوامی رام تیرتھ اور شری کرشن جیسی شخصیات سے آپ متاثر تھے اور اپنی شاعری میں ان لوگوں کا ذکر بھی کیا کرتے تھے۔
علامہ اقبالؒ کو ہندی، اردو، سنسکرت، فارسی اور پنجابی ان زبانوں سے جہاں سے بھی انہیں کچھ اچھا ملا انہوں نے اس کا استقبال کیا۔ نعمان خان نے کہا کہ علامہ اقبالؒ کا ویسے تو بنیادی پیغام قرآن کا پیغام تھا۔ اور قرآن نے انسانیت کا پیغام دیا ہے اور انسانیت کو عام کرنے کا کام علامہ اقبالؒ نے کیا ہے۔ علامہ اقبالؒ کو کوئی سرحدیں نہیں روک سکتی ہیں کیونکہ علامہ اقبالؒ پورے عالم کے شاعر تھے۔ نعمان خان نے کہا کہ اردو زبان صرف ایک ہندوستانی زبان ہے۔ اردو اور ہندی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں زبانوں میں کئی ایسے الفاظ ہیں جو یکساں ہیں۔ اس لیے علامہ اقبالؒ کے پیغام کے ذریعہ انسانیت کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔