جھابوا: وزیر اعظم نریندر مودی نے آج کسی کا نام لیے بغیر کانگریس کے گاندھی-نہرو خاندان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ 'نانا، دادی، والد' سب نے صرف غریب کی جھونپڑی میں جاکر تصویر کھنچوانے کا ڈرامہ کیا اور جن بچوں کو مناسب غذائیت نہیں ملتی تھی، وہ کانگریس لیڈروں کی تصویریں سجانے کے کام آتے تھے۔ مودی مدھیہ پردیش کے قبائلی اکثریتی جھابوا ضلع میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدواروں کی حمایت میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔ ریاست میں انتخابی مہم کا آج آخری دن ہے۔ ایسے میں مودی کی اسمبلی انتخابات میں مہم چلانے کے لیے یہ آخری انتخابی میٹنگ تھی۔ اس سے پہلے انہوں نے ریاست کے بیتول اور شاجاپور میں انتخابی جلسوں سے بھی خطاب کیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کانگریس نے ہمیشہ قبائلی برادری کو ووٹ بینک کے طور پر دیکھا۔ مدھیہ پردیش، گجرات اور راجستھان کے سرحدی علاقے جھابوا کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ راجستھان بھی آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں بھی قبائلی سماج کانگریس سے بھڑکا ہوا ہے۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے قبائلی بھی کانگریس سے ناراض ہیں اور بی جے پی میں بے مثال جوش دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس پر قبائلیوں کے غصے اور بی جے پی پر اعتماد کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ کانگریس کے دور میں قبائلی علاقوں سے صرف فاقہ کشی کی خبریں آتی تھیں۔ کانگریس لیڈر غریبوں کی جھونپڑیوں میں جا کر تصویریں کھنچواتے، ان کی غریبی دکھاتے اور ایک بار خود کی تصویرچمکنے پر اس خاندان کو بھول جاتے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ نانا، دادی، والد سب نے یہی ڈرامہ کیا۔ جن بچوں کو مناسب غذائیت نہیں ملتی تھی، وہ کانگریس لیڈروں کی تصویریں سجانے کے کام آتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب بتاتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے لیکن سچ بتانا ضروری ہے۔ کیا غربت اس کی تصویر کے لیے ہے؟ اس سوچ کی وجہ سے قبائلی دہائیوں تک حاشئے پر رہے۔ اگر یہ ناانصافی جاری رہتی تو ہندوستان کبھی ترقی نہیں کرسکتا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس خطے کے لوگوں کا گجرات میں اتنا آنا جانا ہے، وہاں چند ماہ قبل انتخابات ہوئے ہیں۔ امباجی سے لے کر عمرگام تک پوری قبائلی پٹی میں کانگریس کا صفایا ہو چکا ہے۔ قبائلی سماج نے کانگریس کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
کڑکناتھ مرغے کے لیے ملک بھر میں مشہور اس علاقے میں مسٹر مودی نے اپنی بات کی تائید میں مرغی اور انڈے کی مثال بھی دی۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس والے کہتے تھے کہ سرکاری اسکیم کے تحت اتنا لون ملے گا۔ اتنی مرغیاں آئیں گی، اتنے انڈے ہوں گے۔ قبائلی سوچتا تھا کہ لون مل رہا ہے، اب وہ انڈوں اور مرغیوں سے پیسے کما سکے گا۔ کانگریس والوں کے بھروسے پر وہ قرض لیتا تھا۔ شام کو مرغی گھر نہیں پہنچ پاتی تھی، اتنے میں ’لال لائٹ‘ والی گاڑی آ جاتی تھی۔ گاڑی والا کہتا مرغی تو بہت اچھی ہے اور اسی رات وہ صاف ہو جاتی تھی۔ ایک ہفتے بعد کوئی اور لیڈر یا بابو آتا اور مزید دو مرغیاں چلی جاتیں۔ اس طرح قبائلی مقروض ہو گئے۔