بھوپال: بھارت نے بھلے ہی اپنا 75واں یوم آزادی منایا ہو، لیکن بھوپال کی آزادی کو ابھی 75 سال مکمل نہیں ہوئے کیونکہ بھوپال ریاست کو آزادی کے تقریباً دو سال بعد بھارت میں ضم کیا گیا تھا۔ اس وقت تک وہاں نوابوں کی حکومت تھی۔ سینئر صحافی اور بھوپال کی تاریخ پر کام کررہے رمیش شرما نے بتایا کہ بھوپال کے نواب کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ بھوپال کبھی بھارت کا حصہ بنے۔ وہ اسے پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے کوریڈور کا بھی سوچ لیا تھا۔ یہ کوریڈور بھوپال کے راج گڑھ، گونا سے ہوتے ہوئے راجستھان کے کچھ اضلاع اور پھر ہریانہ اور پنجاب تک بنتا۔ بھوپال میں حالات ٹھیک پاکستان جیسے ہوتے۔ رمیش شرما کا کہنا ہے کہ بھوپال کے نواب کا انگریز سرکار اور کانگریس میں اتنا دخل تھا کہ وہ دو سال تک انہیں جھکا نہیں پائے۔ بھوپال کے بھارت کے ساتھ الحاق کے وقت بھی نواب نے یہ شرط رکھی تھی کہ ان کے محل اور گاڑیوں پر نواب کا ہی جھنڈا ہوگا۔
اورنگ زیب کے سپہ سالار نے بنایا تھا بھوپال
بھوپال پر نوابوں کی حکومت رہی بھوپال کی شاہی ریاست 1723-24 میں قائم ہوئی تھی۔ اس کی بنیاد غوث محمد خان نے رکھی تھی اور بھوپال ریاست کا سیہور، اشٹا، کھلچی پور اور گنور، رائے سین کا بھی حصہ تھا۔ محمد خان دراصل اورنگ زیب کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ 1728ء میں غوث محمد خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے یار محمد خان نے ریاست بھوپال کی باگ ڈور سنبھالی اور خود کو پہلا نواب قرار دیا۔ رمیش شرما بتاتے ہیں کہ مارچ 1818 میں، محمد خان کے وقت، بھوپال کی شاہی ریاست بھارتی برطانوی سلطنت کی شاہی ریاست بن گئی۔ اس کے بعد 1926 میں حمید اللہ خان شاہی ریاست کے نواب بن گئے۔ نواب حمید اللہ 1931 اور 1944 میں دو بار چیمبر آف پرنسز کے چانسلر بنے۔ تاہم آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی انہوں نے چانسلر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے شاہی ریاستوں کی آزادی کی حمایت شروع کر دی۔