ریاست مدھیہ پردیش میں زری زردوزی Zari Zardozi کی قدیم روایت کو بھوپال کے نوابوں کے زمانے کی شان سمجھا جاتا ہے۔ نوابوں کی نگری بھوپال کی جب بھی بات کی جاتی ہے تو یہاں کے قدرتی مناظر، جھیلوں، تالابوں اور تاریخی عمارتوں کے ساتھ زری زردوزی کا ذکر بھی لازمی ہوتا ہے۔
نواب شاہجہاں بیگم اور سلطان جہاں بیگم کے عہد میں زری زردوزی کے دستکاروں کی نہ صرف سر پرستی کی گئی بلکہ ان کے لیے بھوپال میں پری بازار کے نام سے ایک خصوصی مارکیٹ بھی تیار کی گئی تھی جس میں خواتین ہی خریدار اور خواتین ہی دکاندار ہوتی تھیں۔
آزادی کے بعد اس کام کو زندہ رکھنے کے لئے حکومت کی جانب سے اعلانات تو بہت کئے گئے لیکن ان پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔
زری زردوزی کے قدیم کام سے وابستہ یوسف خان کہتے ہیں کہ اس کام سے گذشتہ 35 سال سے وابستہ ہوں۔ بزرگوں کی اس قدیم روایت کو سیکھا تھا اور اب یہی ذریعہ معاش بھی ہے۔ کورونا قہر میں کام نہ ہونے کے سبب کئی بار ایسے حالات بھی پیدا ہوئے کہ اس کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نئی نسل کو یہ سکھاتے ہیں اور اس سے جو کچھ بھی ملتا ہے، اسی سے گزر بسر کرتے ہیں۔ حکومت اس انڈسٹری کی بات تو کرتی ہے لیکن اس پر کبھی توجہ نہیں دیتی جبکہ اس کام کی شہرت صرف بھوپال میں ہی نہیں بلکہ مدھیہ پردیش کے باہر دوسری ریاستوں میں بھی ہے۔