سرینگر (جموں و کشمیر):مرکز کے زیر انتظام خطہ لداخ کے لیفٹیننٹ گورنر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) ڈاکٹر بی ڈی مشرا کی زیر قیادت یو ٹی انتظامیہ کی نئی صنعتی پالیسی نے خطے کے مختلف گروپس اور تنظیموں کے نمائندوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان رہنماؤں، نمائندوں کا استدلال ہے کہ ’’یہ (نئی پالیسی) مقامی اسٹیک ہولڈرز کو خاطر میں لائے بغیر ہی وضع کی گئی ہے اور اس معاہدے سے خطے کے نازک ماحولیات کو مزید خطرہ لاحق ہو گا۔‘‘
لداخ کو علیحدہ یونین ٹیریٹری بنائے جانے کے بعد، لداخ انڈسٹریل لینڈ الاٹمنٹ پالیسی – 2023 اپنی نوعیت کی پہلی پالیسی ہے۔ مرکز کے زیر انتظام علاقے کی تشکیل سےقبل یہ علاقہ سابق ریاست جموں و کشمیر کی صنعتی پالیسی پر عمل پیرا تھا۔ جدید پالیسی پر لداخ انتظامیہ کے پالیسی ڈرافٹ سے دو منتخب اداروں - پہاڑی ترقیاتی کونسلز، لیہہ اور کرگل کو سائیڈ لائن کرنے پر اعتراضات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اس پالیسی کو حال ہی میں منظر عام پر لایا گیا تھا۔ اسٹیک ہولڈرز کا خیال ہے کہ اس تجویز سے علاقے میں بڑی کمپنیز کو قائم کیا جائے گا، جس سے لوگوں اور علاقہ (لداخ) دونوں کو خطرہ لاحق ہو گا۔
ایپکس باڈی، لیہہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، اتوار کو ایک میٹنگ کے دوران اس تجویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ گروپ سماجی، مذہبی اور سیاسی گروپس کا ایک اتحاد ہے جو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد یونین ٹیریٹری کے چھٹے شیڈول کی حمایت کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ باڈی نے کہا کہ اس کے ممبران تنظیم کے چار نکاتی ایجنڈے کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے خطے کے مختلف علاقوں کا دورہ جاری رکھیں گے جس میں لداخ کے لیے چھٹے شیڈول کی آئینی ضمانت بھی شامل ہے۔’’یہ مہم عوامی تحریک کا ایک جزء ہے جس میں لداخ کو ایک مکمل ریاست بننے اور اس خطے کی نمائندگی اور جمہوری عمل میں شمولیت کو بڑھانے کے لیے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں مزید نشستوں کے لیے کہا گیا ہے۔‘‘