پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ 'ہم ریاستی درجے کی واپسی نہیں بلکہ خصوصی درجے کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔'
انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ 'ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ کشمیر مسئلے کے حل کے لئے پاکستان اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ فوری طور بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جانا چاہئے۔'
موصوفہ نے ان باتوں کا اظہار منگل کے روز سرحدی ضلع کپوارہ میں منعقد پارٹی کی ایک تقریب کے حاشئے پر نامہ نگاروں کے ساتھ کیا۔
'ہم ریاستی درجے کی نہیں بلکہ خصوصی درجے کی بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں' انہوں نے ریاستی درجے کی واپسی کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 'ریاستی درجے کی واپسی کی ہم بات نہیں کرتے ہیں بلکہ ہم خصوصی پوزیشن کی بحالی کی بات کرتے ہیں جس کو پانچ اگست 2019 کو ہم سے چھینا گیا۔'
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ کشمیر مسئلے کے حل کے لئے پاکستان اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں پر جو ظلم و ستم مرکزی حکومت نے ڈھائے ہیں، اس کا کچھ اثر دیگر ریاستوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس کی تازہ مثال 21 سالہ دشا روی کی گرفتاری سے عیاں ہے۔
این آئی اے کی کارروائیوں کے بارے میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ 'یہاں لوگوں کو پہلے پکڑا جاتا ہے پھر ان کے خلاف جرم ثابت کئے جاتے ہیں۔ ہمارے بھی کئی لوگ بند ہیں، اس کے خلاف کوئی بات بھی نہیں کرتا ہے۔'
سابق رکن اسمبلی انجینیئر رشید کی حراست کے بارے میں انہوں نے کہا کہ 'ہم کہتے ہیں کہ یہاں کے جتنے بھی نوجوان بشمول انجینیئر رشید بند ہیں، انہیں رہا کیا جانا چاہئے۔'
پیپلز الائنس برائے گپکار اعلامیہ کے بارے میں موصوفہ نے کہا کہ 'یہ الائنس جموں و کشمیر کے لوگوں کی خواہشات کی بات کرتا ہے اور جب تک اس کے ساتھ لوگ ہیں تب تک یہ الائنس چلتا رہے گا۔'