اردو

urdu

ETV Bharat / state

سانحہ ہندوارہ کے 31 برس

عینی شاہدین کے مطابق لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے کیلئے ایمبولنس اتنی کم پڑ گئیں کہ دوسرے اضلاع سے گاڑیوں کو لانا پڑا۔

جنوری 1990 سانحہ ہندوارہ کے 31 سال
جنوری 1990 سانحہ ہندوارہ کے 31 سال

By

Published : Jan 25, 2021, 5:46 PM IST

آج بھی جب ہندوارہ کے لوگ 31 سال قبل کا وہ منظریاد کرتے ہیں جب ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھی تو ان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ دم بخود ہوکررہ جاتے ہے۔ 31سال قبل 25 جنوری 1990 کے دن قصبہ ہندوارہ جب مقتل میں تبدیل ہوگیا اور بی ایس ایف اہلکاروں نے مبینہ طور عوامی ہجوم پر طاقت کا استعمال کیا جس میں 26 افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے، جبکہ 75 کے قریب زخمی ہو گئے، لیکن ملوث اہلکاروں کیخلاف آج تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

ماہ جنوری 1990 میں وادی کے طول عرض سے حکومت مخالف جلوس برآمد ہونے لگے اور اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہندوارہ میں بھی 25 جنوری کیلئے ایک جلوس پروگرام ترتیب دیا گیا۔ یہ طے پایا گیا کہ اس روز تمام علاقوں کے لوگ بائز ہائر سیکنڈری اسکول ہندوارہ میں جمع ہونگے جہاں سے ایک پر امن جلوس نکالا جائیگا۔

واقعہ کے عینی شاہد محمد رمضان بٹ ساکنہ ہندوارہ اور منظور احمد کرمانی نے خبرنگار کو بتایا کہ 25 جنوری 1990 کی صبح رامحال، راجوار، ویلگام، پہرو، قاضی آباد، لنگیٹ، ماور، اور دیگر علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جلوس کی صورت میں قصبہ ہندوارہ کا رخ کرنے لگے اور جلوس میں شامل لوگ حکومت مخالف نعرہ بازی کررہے تھے۔ اس جلسے کی کال علیحدگی پسندوں نے دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اسی اثناء میں بی ایس ایف واری پورہ کیمپ سے ایک گاڑی زیر نمبر HYN7717 میں بی ایس ایف اہلکار ہندوارہ میں ڈیوٹی دے رہے اپنے ساتھیوں کیلئے کھانا لیکر آرہے تھے کہ انہوں نے مشتعل ہجوم میں شامل نوجوانوں کے ساتھ تلخ کلامی اور مبینہ طور نازیبا الفاظ استعمال کئے، جس کے ساتھ ہی مشتعل نوجوانوں نے گاڑی پر دھاوا بول کر اس پر حملہ کیا۔

بی ایس ایف اہلکاروں نے تھانے میں پناہ لینے کی کوشش کی تاہم اسی دوران انہوں نے جلوس پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں قصبہ ہندوارہ مقتل میں تبدیل ہوا۔

عینی شاہد نےمزید کہا کہ دیکھتے ہی دیکھتے 26 افراد ہلاک ہوگئے۔ ان میں محمد شفیع وار ساکنہ دیوس پورہ، محمد شفیع خان ساکنہ سوڈل، نزیر احمد ڈار ساکنہ براری پورہ، شریف الدین خان ساکنہ ولرامہ، غلام محمد شیخ ساکنہ وجہامہ، غلام محمد بیگ ودھ پورہ، علی محمد ایتو ساکنہ چوگل، غلام احمد وار، محمد امین ساکنان کلنگام و دیگر شامل تھے۔ ہلاک شدگان کے علاوہ درجنون افراد زخمی ہوگئے جن میں سے کئی ایک عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے۔

عینی شاہدین کے مطابق لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے کیلئے ایمبولنس اتنی کم پڑ گئیں کہ دوسرے اضلاع سے گاڑیوں کو لانا پڑا۔

ایک اور عینی شاہد محمد سلطان ساکنہ ہندوارہ نے بتایا کہ ان کی عمر اس وقت قریب 16 سال تھی اور وہ صبح سے ہی اپنے دیگر ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ ہندوارہ بازار کو سجانے میں مصروف تھے۔ اس دوران قریب ساڑھے 11 بجے فائرنگ ہوتے ہی کہرام مچ گیا اور چاروں طرف سے آہ و زاری اور چیخ و پکار شروع ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر طرف سے لاشیں اور زخمیوں کو اٹھانے کا عمل شروع کیا گیا جبکہ انہیں بھی نامعلوم افراد نے دھکا دے کر گرادیا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں بھی نیم بیہوشی کی حالت میں ہی لاش سمجھ کر اٹھا لیا گیا اور لاشوں کے کمرے میں ہی رکھ کر کسی رحم دل پولیس والے نے ان کے اوپر وردی برانڈی ڈالی اور بار بار بی ایس ایف والے اس کمرے میں آکر لاشوں کو ٹٹول رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھے۔

لواحقین کے مطابق صرف انہیں 25 ہزار روپے ایکس گریشیا کے طور پر ادا کیا گیا اور یقین دہانی کی گئی کہ ملوثین کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔ اگر چہ اس سلسلے میں پولیس نے بعد میں کیس زیر نمبر 10/1990 بتاریخ 25 جنوری 1990 زیر دفعہ 307/151/53 A/435/436/448/449/336/427 کے تحت معاملہ بھی درج کیا گیا لیکن آج تک ملوث اہلکاروں کی خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

اس واقعہ کے بعد ہندوارہ قصبے میں نو روز تک مسلسل سخت ترین کرفیو نافذ کیا گیا اور کسی کو باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ عینی شاہدین اس وقت ہندوارہ میں جنگ کا سماں تھا جسے یاد کرکے آج بھی ان کے رونگھٹے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ رو پڑتے ہیں اور مقتولین کے لواحقین اس دن ان کے مزار پر جاکر دعا مغفرت مانگتے ہیں اور پرنم آنکھوں کے ساتھ انہیں یاد کرتے ہیں ۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details