آج بھی جب ہندوارہ کے لوگ 31 سال قبل کا وہ منظریاد کرتے ہیں جب ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھی تو ان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ دم بخود ہوکررہ جاتے ہے۔ 31سال قبل 25 جنوری 1990 کے دن قصبہ ہندوارہ جب مقتل میں تبدیل ہوگیا اور بی ایس ایف اہلکاروں نے مبینہ طور عوامی ہجوم پر طاقت کا استعمال کیا جس میں 26 افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے، جبکہ 75 کے قریب زخمی ہو گئے، لیکن ملوث اہلکاروں کیخلاف آج تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
ماہ جنوری 1990 میں وادی کے طول عرض سے حکومت مخالف جلوس برآمد ہونے لگے اور اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہندوارہ میں بھی 25 جنوری کیلئے ایک جلوس پروگرام ترتیب دیا گیا۔ یہ طے پایا گیا کہ اس روز تمام علاقوں کے لوگ بائز ہائر سیکنڈری اسکول ہندوارہ میں جمع ہونگے جہاں سے ایک پر امن جلوس نکالا جائیگا۔
واقعہ کے عینی شاہد محمد رمضان بٹ ساکنہ ہندوارہ اور منظور احمد کرمانی نے خبرنگار کو بتایا کہ 25 جنوری 1990 کی صبح رامحال، راجوار، ویلگام، پہرو، قاضی آباد، لنگیٹ، ماور، اور دیگر علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جلوس کی صورت میں قصبہ ہندوارہ کا رخ کرنے لگے اور جلوس میں شامل لوگ حکومت مخالف نعرہ بازی کررہے تھے۔ اس جلسے کی کال علیحدگی پسندوں نے دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اسی اثناء میں بی ایس ایف واری پورہ کیمپ سے ایک گاڑی زیر نمبر HYN7717 میں بی ایس ایف اہلکار ہندوارہ میں ڈیوٹی دے رہے اپنے ساتھیوں کیلئے کھانا لیکر آرہے تھے کہ انہوں نے مشتعل ہجوم میں شامل نوجوانوں کے ساتھ تلخ کلامی اور مبینہ طور نازیبا الفاظ استعمال کئے، جس کے ساتھ ہی مشتعل نوجوانوں نے گاڑی پر دھاوا بول کر اس پر حملہ کیا۔
بی ایس ایف اہلکاروں نے تھانے میں پناہ لینے کی کوشش کی تاہم اسی دوران انہوں نے جلوس پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں قصبہ ہندوارہ مقتل میں تبدیل ہوا۔
عینی شاہد نےمزید کہا کہ دیکھتے ہی دیکھتے 26 افراد ہلاک ہوگئے۔ ان میں محمد شفیع وار ساکنہ دیوس پورہ، محمد شفیع خان ساکنہ سوڈل، نزیر احمد ڈار ساکنہ براری پورہ، شریف الدین خان ساکنہ ولرامہ، غلام محمد شیخ ساکنہ وجہامہ، غلام محمد بیگ ودھ پورہ، علی محمد ایتو ساکنہ چوگل، غلام احمد وار، محمد امین ساکنان کلنگام و دیگر شامل تھے۔ ہلاک شدگان کے علاوہ درجنون افراد زخمی ہوگئے جن میں سے کئی ایک عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے۔