علمدار کشمیر کو شیخ العالم بھی کہا جاتا ہے، اور وہ کشمیریوں کے سرپرست اولیاء ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبوں کے لوگوں کے دلوں میں بھی ان کے تئیں بہت عزت و احترام کیا جاتا ہے۔
شیخ نور الدین ضلع کولگام کے کیموہ علاقہ میں پیدا ہوئے۔ کیموہ وہ بابرکت مقام ہے، جہاں علمدار کشمیر حضرت شیخ نور الدین نورانی نے اپنا بچپن گزارا اور جوانی کا استقبال کیا۔
نزولِ انوار کا یہی مرکز ہے، جہاں حضرت نور الدین نورانی 12 برس تک مقیم رہے، اسی رشکِ فلک مقام پر ان کے والد محترم شیخ سالار الدین، قابل تعظیم والدہ صدرہ موج، پاک سیرت اہلیہ زٙے دید، فرزند بابا حیدر اور دختر زون دید آسودہ ہیں۔
عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ شیخ العالم کا دور اس وقت تھا، جب کشمیر میں سلطان قطب دین، سکندر، علی شاہ، اور زین العابدین کی حکومت تھی، جبکہ شیخ العالم کے والدین عظیم اسلامی بزرگ حضرت میر سید سمنانی کے زریعے مسلمان ہوئے، جن کا مزار ضلع کولگام میں واقع ہے۔
عقیدت مندوں کے مطابق کیموہ میں قائم اس ولی کامل کی زیارت گاہ پر ہر وقت زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ جبکہ ان کا عرس ہر سال منایا جاتا ہے اور لوگ بلا لحاظ مذہب و ملت اور رنگ و نسل، اس درگاہ پر آکر اپنی عقیدت نچھاور کرتے ہیں۔
اس آستانہ عالیہ میں ایک قدیم چشمہ بھی موجود ہے، جس کی صفائی نہ ہونے سے یہ چشمہ کافی آلودہ ہو چکا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ شیخ العالم اور ان کے گھر والے اسی چشمے کا پانی اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کیا کرتے تھے۔
عقیدت مندوں کے مطابق شیخ نورالدین نورانی اور لل دید کے کلام آپس میں کافی ملتے ہیں، تقریباً 700 سال پہلے شیخ العالم نے ہی کشمیری شاعری کا آغاز کیا تھا، اور ان کے کئی اشعار موجودہ دور میں بھی کافی مقبول ہیں، جن میں" آن پوش تل ییلی ون پوش" جس کا مطلب ہے، جب تک جنگل رہے گے، تب تک کھانا قائم رہے گا۔ انہوں نے اپنے اشعاروں کے ذریعے قرآن کا ترجمہ کیا، اس لئے ان کے کلام کو شیخ شروق بھی کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:ترال کی ہونہار طالبہ: خنسا حسینہ ثنا نے حاصل کیا گولڈ میڈل
واضح رہے کہ شیخ نور الدین نورانی نند رشی کے لقب سے بھی جانے جاتے ہیں۔ شیخ نور الدین نورانی 1377 عیسوی میں پیدا ہوئے تھے، جب کہ وہ 1440 عیسوی میں 63 سال کی عمر میں خالق کائنات سے جاملے۔ شیخ العالم کا مقبرہ چرار شریف میں واقع ہے، جہاں ہزاروں لوگ ان کے آستانہ عالیہ پر پہنچ جاتے ہیں۔