کیرالہ کے کوزی کوڈ ضلع کے سی پی آئی ایم کارکن شیجن کی شادی نے کیرالہ میں ایک تنازع کھڑا کردیا ہے۔ شیجن، ایک مسلمان ہیں جنہوں نے جوائسنا سے شادی کرلی جو ایک عیسائی ہیں۔ جوائسنا جاریہ ماہ کی 10 تاریخ سے لاپتہ تھیں۔ ان کے گھر والوں نے کوڈانچیری پولیس اسٹیشن میں اس کی گمشدگی کی شکایت درج کروائی تھی۔ شکایت درج کرانے کے تین دن بعد جوائسنا کے گھر والے اور مقامی افراد نے پولیس اسٹیشن کے روبرو احتجاج کیا اور پولیس کی کارکردگی پر تنقید کی۔ اس دوران جوائسنا نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں اس نے شجین سے اپنی مرضی سے شادی کرنے کا اعتراف کیا لیکن گھر والے اس بات کو ماننے کےلیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی دباؤ کی وجہ سے ان کی لڑکی نے اس طرح کا بیان دیا ہے۔
انہوں نے کچھ سی پی آئی ایم رہنماؤں پر شجین کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا۔ والد نے عدالت میں ہبیس کارپس کی درخواست دائر کرکے جوائسنا کو عدالت میں پیش کرنے کی التجا کی تھی جس کے بعد جوائسنا اور شجین کو ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا، تاہم جوائسنا نے عدالت میں دیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے جوڑے کو جانے کی اجازت دے دی۔ سی پی آئی ایم کوزی کوڈ ضلع سکریٹریٹ کے رکن گورجے ایم تھامس نے گذشتہ روز کہا کہ پارٹی شجین اور جوائسنا کی شادی معاملہ سے خود کو دور رکھ رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس طرح شیجن نے جوائسنا سے شادی کی وہ مناسب نہیں ہے، جس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوسکتی ہے۔
گورج ایم تھامس نے کہا کہ لوجہاد ایک حقیقت ہے۔ ایس ڈی پی آئی اور جماعت اسلامی جیسی بنیاد پرست تنظیموں کی جانب سے مبینہ طور پر لوجہاد پروجیکٹ چلایا جاتا ہے جس کا مقصد اعلیٰ تعلیم یافتہ غیرمسلم خواتین کو پھنسانا ہے۔ گارج ایم تھامس نے مزید کہا کہ شیجن کو شادی سے قبل پارٹی سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔ گورج ایم تھامس کے بیان پر شدید تنقید کی جارہی ہے کیونکہ سی پی آئی ایم کا موقف رہا ہے کہ لوجہاد تنازع کو سنگھ پریوار کی جانب سے سماج کو پولرائز کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جب کہ گورج ایم تھامس کا موقف اس کے برعکس ہے۔