گلبرگہ: وہ معاشرہ جو اپنے مرحومین، دانشوروں، ادبیوں اور فنکاروں کو فراموش کر دیتا ہے، بے حس اور خود غرض ہوتا ہے۔ بچھڑنے والوں کو یاد کرنا اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنا ایک مستحسن روایت ہے۔ ان خیالات کا اظہار صدارتی خطاب میں ڈاکٹر پیر زادہ فہیم الدین صدر انجمن ترقی اردو ہند (شاخ) گلبرگہ کے زیر اہتمام، علاقہ کلیان کرناٹک کے ممتاز شاعر سعید عارف اور نامور افسانہ نگار سمیرا حیدر کے سانحہ ارتحال پر منعقدہ جلسہ یا درفتگاں میں کیا۔
ڈاکٹر پیر زادہ فہیم الدین نے دونوں قلم کاروں کی حیات وصفات کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پیش رو مقررین نے ان شخصیات پر اظہار خیال کرتے ہوئے رمق بر بھی مبلغ ارائی سے کام نہیں لیا نامور شاعر ادیب و صحافی حامد اکمل نے اظہار خیال کرتے ہوئے سمیرا حیدر سے اپنے طویل مدتی مراسم کے حوالے سے کہا کہ وہ تخلیقی زرخیزی کی حامل سنجیدہ فکر افسانہ نگار تھیں۔ انھوں نے کہا کہ سمیرا حیدر کے شوہر ناظم خلیلی بھی نامور افسانہ نگار تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ناظم خلیلی کوئی افسانہ آدھا لکھتے اور میرا حیدر کو مکمل کرنے کے لیے کہتے بآسانی افسانہ عمل کرتیں اور افسانے میں کہیں شائبہ نہ ہوتا کہ اسے دو افسانہ نگاروں نے آدھا آدھا لکھا ہے۔
ڈاکٹر جلیل تنویر نے سعید عارف کی شخصیت سے متعلق اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ سعید عارف ان کے ہم محلہ اور ان کے بڑے بھائی رشید جاوید کے قریبی دوست تھے۔ شعری صلاحیتیں ان میں پیدائشی تھیں، لیکن 1990 کے آس پاس محبت کو ثر اور صبح حیدر صبح کی مستقل محبتوں نے ان کے اندر کے شاعر کو اجاگر کیا۔ اس کے بعد وہ مسلسل لکھتے رہے اور ایک کامیاب شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی۔ ڈاکٹر جلیل تنویر نے مزید کہا کہ سعید عارف کی شخصیت آئینے کی طرح شفاف تھی۔ وہ بیحد شریف النفس، سادہ مزاج اور وضع دار انسان تھے۔ سید قائم رضا زیدی نے اپنی ہمشیرہ سمیرا حیدر کی زندگی کے آخری سفر کی روداد نہایت دل گداز انداز میں بیان کرتے ہوئے سمیرا حیدر کی افسانہ نگاری کے آغاز اور ارتقا کے تناظر میں ان کی افسانہ نگاری کا جامع جائزہ لیا۔