ممبر و محراب سے آواز بلند ہو بنگلور:گزشتہ چند دنوں سے سوشیل میڈیا میں اکالی دل پارٹی کے رہنما سکھبیر سنگھ بادل و الیکشن اسٹریٹجسٹ پرشان کشور کے بیانات گردش کر رہے ہیں جن میں بتایا جارہا ہے کہ بھارت میں مسلمان 18 فیصد ہونے کے باوجود ان میں نہ ہی اتحاد ہے اور نہ ہی ان کا کوئی مضبوط سیاسی لیڑر ہے. یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مسلمان بجائے خود مختار ہوکر قیادت کی طرف بڑھنے کے کسی نہ کسی پر نربھر ہورہے ہیں کہ فلاں ہمارا قائد ہے اور فلاں، لیکن خود جدوجہد نہیں کر رہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Maulana Salman Nadvi: 'مسلمانوں کے انتشار نے مسلم قیادت کا فقدان پیدا کردیا ہے'
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات کرتے ہوئے پرعفیسر اعظم شاہد نے مسلمانوں میں قیادت کے فقدان پر روشنی ڈالی اور اس کے حل کے تئیں اپنی رائے بھی بتائی، کہ کس طرح ملت میں لیڑرشپ کو ابھارا جاسکتا ہے. پروفیسر اعظم شاہد نے بتایا کہ عام طور پر جب کبھی بھی سوشیل میڈیا میں کسی کی جانب سے مسلمانوں کو ان کے قیادت کے فقدان کے متعلق آئینہ دکھایا جاتا یے تو ایک وبا کی ترح ہلچل مچتی ہے اور سناٹا چھا جاتا ہے تاہم کہیں بھی اس مسئلے کے حل کے تئیں عملی طور ہر حرکت نظر نہیں آتی۔
اعظم شاہد نے کہا کہ قیادت کے متعلق ممبر و محراب سے آواز بلند ہوتی، دانشوران و مفکرین کے طبقے اس پر لبایک کہتے اور سبھی ملکر متحدہ طور پر منصوبہ بندی کے ساتھ اس سنھین مسئلے کو ہل کرتے. انہوں نے کہا کہ ملت اسلامیہ میں ہونہار، قابل و قیافت کی صلاحیت سے لیس نوجوانوں کی کمی نہیں، تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے نوجوانوں کی نشاندہی کی جائے، علما کرام و دانشوران ان کی رہنمائی کریں اور اہل سروت حضرات ان پر مال خرچ کرتے تاکہ ملت اسلامیہ میں بنے قیادت کے ویکیوم کو پر کیا جائے۔
گفتگو کے دوران پروفیسر اعظم شاہد نے بتایا کہ ریاست کرناٹک میں لنگایت، ووکالیگا و کوروبا کمیونیٹیز بھی اقلیتوں میں شمار کیے جاتے ییں، لیکن ان میں سماجی مذہبی و سیاسی قیادت اس قدر مضبوط ہے کہ ریاست میں حکومت تشکیل کرنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، ان کمیونٹیز میں ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ انہیں نمائندگی حاصل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لنگایت کے مٹھ کے جو مذہبی حضرات ہیں وہ حکومتوں سے اپنی مانگیں منواتے ہیں حتیٰ کہ کئی مثالیں ہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی۔ یے کہ حکومتیں ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں۔ اعظم شاہد نے قرآن کریم کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملت اسلامیہ کو چاہیے کہ وہ تبدیلی کی خواہاں ہو اور اس سمت میں جدوجہد بھی کرے، تبھی یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی کی مدد شامل حال ہو۔
اس سوال پر کہ اگر کوئی ادارہ یا گروح یہ ارادہ کرے کہ وہ ملت اسلامیہ میں قیادت کے متعلق کام کرنے کی سوچ رکھے تو انہیں کیا اقدامات کرنے ہوں گے، پروفیسر اعظم نے بتایا کہ سیاست قیادت کے لیے گرام پنچایت، مونیسیپال و کارپوریشن ہی سے شروعات کی جائے جہاں قابل نوجوانوں کی نشاندہی ہو، انہیں موضوع تربیت دی جائے اور پھر اسمبلی اور پارلیمنٹ کی طرف رخ کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کام میں ایک منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو کک علماء کرام، دانشوران ملت اور دیگر اہم شخصیات مل بیٹھ کر تیار کریں اور عملی جامعہ پہنائیں۔