جن اسکولوں کی یہ صورت حال ہے ، اس میں علاقائی زبانوں مثلاً اردو، تلگو اور مراٹھی وغیرہ شامل ہیں۔
اس سلسلے میں پیش ہے ای ٹی وی بھارت کی بنگلور کے شواجی نگر کے لطیفیہ اردو اسکول کی خصوصی رپورٹ۔
لطیفیہ اردو اسکول بدحالی کے شکار لطیفیہ اردو اسکول کا قیام سنہ 1897 میں ہوا تھا، یہ تقریباً 22،000 اسکوائر فیٹ رقبہ میں پھیلا ہوا ہے۔
فی الوقت لطیفیہ اردو اسکول کی صورت حال انتہائی خستہ ہے،جہاں صرف27 طلبا زیر تعلیم ہیں، اور اساتذہ کی تعداد تین ہے۔
لطیفیہ اردو اسکول کا تعلیمی معیار خراب ہوا ہے بلکہ یہاں انفراسٹرکچر کی بھی شدید کمی نظر آ رہی ہے، بنیادی ضروریات سے بھی اسکول کا ماحول محروم ہے۔
اسمال اپیل نامی غیر سرکاری تنظیم کے ارکان مثلاً محمد کیف اور ذاکر حسین وغیرہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے بچوں کے تعلیمی معیار کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ریٹائرڈ ٹیچر و بنگلورو اردو ٹیچرس اسوسیشن کے سابق صدر فیض اللہ جنیدی نے کہ شہر میں سرکاری اردو اسکولوں کی بد حالی کے لئے بلا شبہ حکومت ذمہ دار ہے ۔ان اسکولوں کے حالات بہتر کرنے کے لئے ضرورت ہے کہ اردو سے محبت رکھنے والے حضرات متحد ہوکر ایک تحریک کی ابتداء کریں اور اس سے جڑے تمام اداروں و زبان کی ادبی ساخت کی حفاظت کریں۔
لطیفیہ اسکول کے متعلق بات کرتے ہوئے اسکول کے ایڈوپٹی محمد کیف نے کہا کہ یہ ہماری ایک چھوٹی سی کوشش ہے کہ اس سرکاری اردو اسکول کو بہتر بنائیں تاکہ یہاں زیر تعلیم طلباء کا مستقبل بہتر ہوسکے۔
محمد کیف کہتے ہیں کہ ہم اپنی این. جی. او کی اور سے اس کوشش میں ہیں کہ اردو دان طبقہ و دانشوران ان سے اس کام میں جڑ کر ان کا ہر اعتبار سےتم تعاون کریں تاکہ اس مقصد کو بآسانی کامیاب کرسکیں۔
اسمال اپیل ای. ن. جی. او کے ذمہ دار اور اسکول کے ایک اور رکن ذاکر حسین کہتے ہیں شواجی نگر مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں تعلیم کی بہت کمی ہے، لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ اس اسکول میں وہ اپنی کوششوں سے تعلیمی معیار کو بڑھائیں تاکہ اسکول میں بچوں کی تعداد بڑھ سکے۔